دنیا اتنی ہی ہے ، یا انسان کا کوئی ذہنی اور روحانی وجود بھی ہے ، جس کے تقاضے مادی دنیا سے علیٰحدہ ہیں ، اور جس کے نتائج وآثار کچھ دوسری طرح کے ہیں ، انسا ن کا مادی وجود خوراک اور لباس چاہتا ہے ، سر چھپانے کے لئے مکان چاہتا ہے ، بقائے نسل کیلئے جوڑا چاہتا ہے ، پھر اسی دائرے میں خوب سے خوب تر تلاش کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس دائرے کو وہ اتنا پھیلاتا ہے کہ کائنات اسے تنگ معلوم ہونے لگتی ہے ، آج کے دور میں انسان کو جسمانی ضروریات کی تکمیل وتحسین میں اتنا غلو اور انہماک ہوگیا ہے کہ شاید وہ تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ سوچنے کی مہلت نہیں پاتا کہ اس ظاہری اور مادی دنیا کے ماورا ایک اور دنیا اس کے باطن میں آباد ہے ، جس کی وسعت کے سامنے یہ مادی دنیا ہیچ ہے، اس باطنی دنیا میں بھی اسے خوب سے خوب تر تلاش کرنا چاہئے ، مگر ادھر سے صرف غافل ہی نہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اس سے انکار ہے ، وہ لوگ جو خدا سے دور ہیں ، مشرک ہیں ، ان کا کیا ذکر ، خود وہ جو اسلام وایمان والے ہیں ، انکے احوال بھی بظاہربصورت انکار ہی ہیں ، یاکم ازکم غفلت کاشکار ضرور ہیں ۔
دنیا والوں کے سامنے مادی ساز وسامان اور جسمانی تقاضوں کی فراہمی کا مسئلہ ہوتا ہے، تو ان کے مراکز تک پہونچتے ہیں ، کسی بازار میں ، کسی دکان میں ، کسی کمپنی میں ، کسی صاحب ثروت ودولت کے پاس ، کسی کارخانے اور فیکٹری میں ، اور دنیا میں ان چیزوں کی اتنی بہتات ہے کہ قدم قدم پر یہ مراکز ملتے جاتے ہیں ، اور آدمی اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے ، لیکن جس دنیا کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے ، روحانی دنیا ، باطنی دنیا ، اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ اس کا ساز وسامان کیا ہے ؟ اس کا مرکز کہاں ہے ؟ اس کی اہمیت کیا ہے ؟ خود یہ دنیا کیا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ خود انسان کیا ہے ؟ کیا وہ عام جانداروں کی طرح ایک جاندار مخلوق ہے ، جس کو آسودگی ٔشکم ، تکمیل شہوت ، راحت رسانی جسم کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے ، تو روحانی دنیا اس کے لئے بے معنی چیز ہے؟ باطنی دنیا بغیر مفہوم اور حقیقت کے محض ایک لفظ ہے ، لیکن ظاہر ہے انسان خواہ کتنا ہی