حوصلے کی بلندی کے باعث اوچھی حرکتوں سے اجتناب کرتا ہے، کبھی سوسائٹی میں اپنے وقار وعزت کے لئے کوئی بڑا کام کرتا ہے، یہ سارے کام اپنے ظاہر اور اپنی صورت کے لحاظ سے خوبصورت اور قابل تعریف ہوتے ہیں ، مگر روح نہ ہونے کی وجہ سے ان کا درجہ محض مزاج اور عادت کا ہوکر رہ جاتا ہے، بارگاہِ حق میں قبولیت کی لیاقت ان میں نہیں ہوتی، عادت اور طاعت وعبادت میں بہت فرق ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ص مشہوربرگزیدہ صحابی ہیں ، فرماتے ہیں کہ سئل رسول اﷲ ﷺ عن الرجل یقاتل شجاعۃً،ویقاتل حمیۃً، ویقاتل ریائً أی ذٰلک فی سبیل اﷲ، رسول اﷲ اسے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی بہادری کے جذبے کی بناپر لڑتا ہے، ایک آدمی خاندانی غیرت کی بناپر لڑتا ہے، ایک آدمی دکھاوے کے جذبے سے لڑتا ہے ، ان میں کون اﷲ کی راہ میں ہے؟ فرمایا: من قاتل لتکون کلمۃ اﷲ ھی العلیا فھو فی سبیل اﷲ ، جو اس لئے لڑا کہ اﷲ کی بات بلند ہو، وہ اﷲ کی راہ میں ہے۔( بخاری شریف :رقم الحدیث ۴۷۵۸،کتاب التوحید ۔مسلم شریف : رقم الحدیث ۱۹۰۴،باب من قاتل لتکون کلمۃ اﷲ ھی العلیا)
جہاد وقتال بڑی عبادت ہے ، اور بہت بلند مرتبہ عمل ہے ، لیکن اگر رضائے الٰہی مقصد نہیں ، تو اس کا ڈھانچہ ایک بے جان ڈھانچہ ہے۔
رسول اﷲ ا کے ہرعمل ، ہرترک، ہر اخلاق، ہر سختی اور ہر نرمی کی روح یہی حصولِ رضائے الٰہی ہے۔
٭٭٭٭٭
جب رسول اﷲ ا کی زندگی کا ہر لمحہ ، ہر عبادت، ہر قربانی کامقصد بلند رضائے الٰہی کا حصول ہے ، تو جب آپ کی پیروی کا حکم امت کو دیاگیا، تو اس کی بنیاد اور روح بھی یہی مقصد ہے ، چنانچہ اﷲ کے اس ارشاد میں غور کیجئے کہ :قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ، اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی کرو،اﷲ تم سے محبت فرمائیں