متواتر تین چار سال تک اسے موضوع بناکر مطالعہ کرتا رہا، اور کہیں بھی ناکامی کا سامنا نہیں پڑا، ہر راہ روشن تھی ، ہر مرحلہ اجالاتھا ، قلب ودماغ میں جو الجھن بھی آئی ، اسوۂ حسنہ نے اسے بخوبی حل کیا ، لکھنے لکھانے کا ذوق نہیں تھا ، ورنہ اگر اس وقت حاصل مطالعہ ضبط کئے ہوتا، تو ایک کارآمد چیز وجود میں آجاتی، مگر کیا ہوا؟ لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے ، کوئی تلاش کرنے والا اور پڑھنے والاتوہو۔
کسی کو اﷲ کی رضا وخوشنودی کی فکر ہو، آخرت اس کے پیش نظر ہو، اﷲ کی یاد اس کے دل میں بسی اور زبان اس سے تروتازہ ہو، اس کے سامنے اسوۂ حسنہ کا جلوہ تمام تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔
٭٭٭٭٭
حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں صاحب اسوۂ حسنہ رسول کریم اکوایک حکم دیا ہے ، اگر غور کیجئے ، تواسوۂ حسنۂ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی روح اسی حکم کی تعمیل ہے، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : قُلْ إِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ َومَمَا تِیْ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ( سورۃ الانعام:) تم کہو کہ بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے، جو سارے جہان کا پروردگار ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اور میں اسے اول تسلیم کرنے والا ہوں ۔
عبادت ہو، معاشرت ہو، اخلاق ومعاملات ہوں ، ایفائے عہد ہو، صدق مقال ہو، رحمدلی ومہربانی ہو، سخاوت وفیاضی ہو، دوستی ودشمنی ہو، صلح ہو، جنگ ہو، جان لینی ہو، جان دینی ہو، ہتھیار اٹھاناہو، ہتھیار ڈالنا ہو، محبت ہو، نفرت ہو، عمل ہو، ترکِ عمل ہو، حلم ہو، غضب ہو، غرض زندگی کی کوئی شان ہو ، کوئی حرکت وعمل ہو، سب کا داعیہ اور سب کی علت غائیہ اﷲ کی رضا کا حصول ہو۔
آدمی کبھی اپنے طبعی مزاج کے زیر اثر کوئی عمل کرتا ہے، اخلاق برتتاہے ، کبھی اپنے