سے محبت فرمائیں گے، اور تمہاری غلطیوں کو معاف کردیں گے ، اور اﷲ تعالیٰ تو ہیں ہی مغفرت کرنے والے ، رحم فرمانے والے۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے صراحۃً حکم دیا ہے کہ ،اس نمونۂ کامل کے قدم بقدم چلے آؤ، اﷲ تعالیٰ اپنی محبت وعنایت سے نوازیں گے، اور اس کے بعد اگر کمزوری کی وجہ سے کچھ غلطی ہوجائے گی تو اس سے درگزر فرمائیں گے ۔
ان دونوں ارشاداتِ الٰہی سے معلوم ہواکہ زندگی کے ہر نشیب وفرازمیں اور ہر مرحلے میں رسول اکرم ا انسانیت کے صلاح وفلاح کے لئے نمونۂ کامل ہیں ، یہی چیز رضاء خداوندی، فلاحِ آخرت، تحصیل محبت الٰہی کیلئے براہ راست یقینی اور قطعی ذریعہ ہے۔
٭٭٭٭٭
کسی نمونہ پر ڈھلنے اور اس کی کامل پیروی کرنے کے لئے ضروری ہے ، کہ وہ بتمام وکمال ہمہ وقت آدمی کے پیش نظر رہے۔ اگر ایسا نہ ہو ، بلکہ نمونہ کاکچھ جز پیش نظر ہواور کچھ غائب ہوتو اتباع ہرگز نہ ہوسکے گا، اﷲ نے اپنے آخری رسول کو جب نمونۂ کامل بنایا، اور ان کی پیروی اور اتباع کاحکم دیا ، تو اس کا انتظام بھی فرمایا ، کہ تلاش کرنے والوں کے سامنے نمونے کے تمام اجزاء اپنی اصلی ہیئت میں موجود ہوں ، آپ کی حیاتِ طیبہ میں ، آپ کے اصحاب کے لئے آپ سے ہمہ وقتی استفادہ علماً بھی اور عملاً بھی بہت آسان تھا ، لیکن بعد والوں کے لئے بھی حق تعالیٰ نے آپ کے اُسوۂ حسنہ کو اس جامعیت کے ساتھ محفوظ فرمادیا ہے ، کہ زندگی کا کوئی مرحلہ ، کردار وعمل کا کوئی موڑ، معاشرہ کی کوئی پیچیدگی، طبیعت انسانی کی کوئی الجھن، امید وبیم کی کوئی کشمکش ، دوستی ودشمنی کی کوئی نزاکت اور خاندانی تعلقات کی کوئی گرہ ایسی نہیں ہے ، جس کی رہنمائی آپ کے اُسوۂ حسنہ میں نہ ملتی ہو۔
مدرسہ کی تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد جب دینی مدارس کے ماحول میں ، اور اس کے ساتھ عامۃ الناس کے معاشرہ میں کام کرنے کا اس خاکسار کو موقع ملا، تو شدت سے احساس ہواکہ زندگی کی ہر راہ اور راستے کے ہر موڑ پر، اسوۂ نبوی کو تلاش کرنا چاہئے ۔ چنانچہ