محبت کیاہوں ؟ عبادت ہو،تو حق عبادت کیا ہو؟ اطاعت ہو، تو جذبۂ اطاعت کیا ہو؟ اخلاق ہو، تو حسن اخلاق کیا ہو؟ ان تمام سوالوں کا جواب قرآن کریم میں پانے والے پاتے ہیں ، لیکن ان سب جوابوں کی عملی تشکیل کس طرح ہو، تاکہ علم کے ساتھ ڈھونڈھنے والا عملی صورت بھی پالے، پھر اسے ہمت وحوصلہ بھی اور حسن عمل کا راستہ بھی مل جائے، اور نمونہ دیکھ کر کام کرنے کا سلیقہ بھی آجائے۔
حق تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی فرمائی ۔ علم تو اتارا ہی ، ساتھ میں عملی تشکیل کا نمونہ بھی بھیجا ، اگر یہ نمونہ نہ ہو تا تو علمی احکام ومسائل ، عمل کا پیکر جمیل نہ اختیار کرپاتے ، یہ نمونہ خود حق تعالیٰ نے بنایا، سنوارااور سجایا، پھر اسے پسند کیا، اس پر رضامندی کااظہار فرمایا ، پھر سب کو حکم دیا کہ اسی نمونہ پر اپنے کو ڈھالتے چلے جاؤ، انسانیت جس قدر اس نمونے کے قریب ہوگی ، بارگاہِ حق میں اتنی ہی پسندیدہ ہوگی ، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْراً O(سورۃ الاحزاب:)تمہارے لئے اﷲ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ، اس شخص کیلئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور آخرت کے دن کی امیدرکھتا ہے، اور اﷲ کو بہت یاد کرتا ہے۔
یعنی جس کسی کا مقصد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی رہیں ، آخرت میں کامیاب وسرخ رو ہو، اور زندگی کے ہر لمحے میں اﷲ کویاد رکھتا ہو، اس کے لئے حضرت محمد رسول اﷲ ا ایک بہترین نمونہ ہیں ،اسی نمونہ پر اپنی صورت وسیرت ، اخلاق وکردار ، افکار وخیالات ، عقائد ونظریات کو ڈھالتا چلا جائے، حسین سے حسین تر ہوتا چلا جائے گا، اس کے جمال سے دنیا چمک اٹھے گی۔
حق تعالیٰ کاایک اور ارشاد ملاحظہ ہو: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ(آل عمران:) اے رسول تم یہ بات لوگوں سے کہہ دوکہ اگر تم لوگ اﷲ کی محبت رکھتے ہو، تو میرا اتباع کرو، پھر اﷲ تعالیٰ تم