ادھر تقریباً تین چوتھائی صدی سے تبلیغی جماعت ایک خاص انداز سے مسلمانوں کی دینی خدمت میں مشغول ہے، اسے خدمت کرتے ہوئے لمبا عرصہ گزر گیا، اس کا دائرۂ کار بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ اس کا حلقۂ اثر اب عرب وعجم کو محیط ہونے لگا ہے ، عرب علماء وعوام نے اس کی خدمت کو پسند کیا ، عرب ممالک کے قافلے سرگرم سفر نظر آنے لگے ، ہندوستان میں بھی کثیر تعداد میں ان کی جماعتیں آنے لگیں ، یہ خالص عوامی طرز کی خدمت ہے ، جو سادگی کے ساتھ انجام پاتی ہے اس کے ذریعہ بے شمار ایسے لوگ جو خدا کے آستانہ سے نہ صرف محروم بلکہ باغی اور مجرم تھے ، یکایک اﷲ کے دربار میں حاضر ہوکر سجدہ ریز ہونے لگے ، جنھیں اسلام کی ابتدائی چیزوں کی خبر نہیں تھی وہ اس میں لگ کر دین وایمان کے نمونے بن گئے ، ایمان کی ایک تازہ بہار چمنستان اسلام میں خیمہ زن ہونے لگی ، تبلیغی جماعت میں اسلام کے نام لیوا سبھی جماعتوں کے صالح افراد شامل ہونے لگے ، حتیٰ کہ اہلحدیث طبقہ کی بھی خاصی تعداد اس قافلہ میں شریک ہوگئی ۔ اس کا نتیجہ غیرا رادی طور پر یہ نکلا کہ پٹاخے داغنے والی سب جماعتیں سکڑنے لگیں ، کیونکہ تبلیغی جماعت کا طریقۂ کار مثبت اور مفید ہے، اور مفید بھی ایساکہ لگے ہاتھوں فائدہ دکھائی دینے لگتا ہے ، مسجدیں نمازیوں سے بھرنے لگتی ہیں ، چہروں پر اسلام کا نور جھلکنے لگتا ہے، پھر تبلیغی جماعت کے بڑے بڑے اجتماعات بھی ہوتے ہیں ، جن میں شریک ہونے والے ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں گنے جاتے ہیں ، اس کااثر اس ’’خادم سنت ‘‘ طبقہ پر پڑا ، اس کے پیٹ میں حسب معمول مروڑ اٹھنے لگا اور لوگ اس کے باعث بل کھانے لگے ، اور نتیجہ میں جو ’‘’خدمت ‘‘ اس کے بطن سے خارج ہوئی ، اسے ایک اشتہار کے ذریعے مشتہر کیا ، کہنے کوتو وہ ایک عربی کالم کی تحریر کا ترجمہ ہے ، لیکن اردو سے عربی میں ترجمہ کرکے ناقص بلکہ غلط معلومات فراہم کرنے والی یہی جماعت ہے ، ورنہ بے چارہ عرب عالم اردو تقریروں اورتحریروں کو کیا سمجھے ، یہ بالکل وہی کارنامہ ہے جو بریلی کے مولوی احمد رضا خان نے ۱۳۲۴ھ میں عرب جاکر انجام دیا تھا ۔ اب تقریباً ایک صدی کے بعد ۱۴۱۶ھ میں طبقۂ اہلحدیث نے اس کی تجدید کی ہے ، اشتہار کے تیور ملاحظہ ہوں ۔