پر کھڑا ہے ، البتہ وہ بنیادیں لوگوں پر ظاہر نہ تھیں ، ان کے شور وہنگامہ کے بعد محققین نے ان دلائل وبراہین کو نمایاں کیا ، جن سے لوگ غافل تھے ، اس ضمن میں علوم ومعارف کاایک نیا دبستاں کھل گیا ، محدثین کی ایک گراں فوج سامنے آکھڑی ہوئی، اس سے دنیا کو ایک زبردست علمی فائدہ پہونچا، احناف کو شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ جماعت اہل حدیث کی ایک بے محل چھیڑ اور بے وقت کی چیخ وپکار سے علم وتحقیق اور ہدایت کاایک نیا باب مفتوح ہوا۔
یہ قافلہ تو آگے نکل گیا ، پٹاخوں کی دھائیں دھائیں کم ہونے لگی ، قریب تھا کہ اس کا تشخص ختم ہوجائے ، کہ اچانک آواز آئی کہ وادی نجد میں دولت وثروت کا خزانہ زمین کی تہوں سے نکل آیا ہے، یہ ادھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ان کے حریف بھی کچھ کچھ پہونچ رہے ہیں ، پھر تو پھلجڑیوں کا طوفان اٹھنے لگا ، اتنا دھواں اٹھایا کہ فضا مکدر ہوگئی ۔ کبھی عقائد کا مسئلہ ، کبھی طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ ، کبھی تراویح کا مسئلہ! لیکن اسی دوران نجد کے فرزند اکبر خادم الحرمین الشریفین الملک فہد کے عظیم الشان پریس سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ دیوبندی کا ترجمہ قرآن مع فوائد عثمانی کے چھپ کرتقسیم ہونے لگا ، اس سے اس ٹولہ کا اضطراب بڑھ گیا ، پھر بہت دُند مچائی۔ وہی تفسیر جو آج سے نہیں ، عرصۂ دراز سے پڑھی پڑھائی جارہی ہے ، جماعت اہل حدیث کے علماء بھی اس کے مطالعہ سے محروم نہیں ہیں ، اور اس میں کوئی خرابی نظر نہ آتی تھی ، جب وہ مدینہ منوہ کے شاہی پریس سے چھپ کر نکلی، اور لکھوکھا کی تعداد میں تقسیم ہونے لگی تو اس میں شرک وبدعت کے کیڑے نظر آنے لگے، بلکہ گمراہیوں کے شعلے لپکنے لگے ، ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ اس کی تقسیم بند ہوجائے ، اعتراضات کی جھڑی لگادی ، علماء دیوبند چونکے ، جن چیزوں کو کبھی قابل اعتراض نہیں سمجھاگیا تھا ، جب انھیں پر تعصب کی چاند ماری ہونے لگی ، تو علماء کو تنبہ ہوا، اور سلف کے حوالوں سے ثابت کردیا کہ جو کچھ اس ترجمۂ وتفسیر میں ہے ، وہ عین حق ہے ، اس جماعت کی پھلجڑی بجھ گئی ، لیکن پرانا قابل اتباع علم زندہ ہوگیا اور ہدایت کی راہ خس وخاشاک سے پاک ہوگئی ، جماعت اہل حدیث کاایک بار اور شکریہ !