اور طاقت ور ہوجاتا ہے، پھر وہ دم بدم نعمتوں کا مشاہدہ کرتا ہے، اور اس کے قلب وزبان سے حمد وشکر کے زمزمے بلند ہوتے ہیں جب تک حمد وشکر میں وہ اور اس کے اخلاف مشغول رہتے ہیں ، نعمتوں کا سلسلہ رکتا نہیں بڑھتا اور پھیلتا رہتا ہے: لئن شکرتم لازیدنکم (سوہ ابراہیم :۷)، اگر تم شکر ادا کروگے تو ہم بڑھاتے رہیں گے، اور اس سے پہلے وہ صبر کرکے اجر بے حساب حاصل کرچکا ہے، انما یوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب (سورہ الزمر:۱۰) صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے پورا پورا ادا کیا جاتا ہے۔
غرض مومن کی سوچ الگ ہے، اور اس کی بنیاد پر اس کا عمل اور اس کے دل کاحال الگ ہے، خدا نہ کرے کوئی مومن، اہل دنیا کے طرز پر سوچنے لگے پھر الجھنوں کا کوئی علاج نہیں ہوگا۔ ظاہری دنیا میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں ، مسائل ہی مسائل ہیں ، مال ہے تو اس کی حفاظت اور اس میں اضافہ کی فکرایک درد سر ہے، مال نہیں ہے، تو غربت وافلاس کی بے بسی ہے، پھر عزت وذلت کا مسئلہ ہے، صحت ومرض کی الجھن ہے، دوست ودشمن کاچکر ہے، اﷲ ہی جانتا ہے کیا کیا مسائل ہیں ۔ مگر مومن ان ساری الجھنوں اور فکروں کو سمیٹ کر بلکہ ان سے قطع نظر کرکے ان کے سرچشمہ تک جا پہونچتا ہے، جو ایک ہی بارگاہ ہے، وہاں تمام الجھنیں اسے چھوڑ کر الگ ہوجاتی ہیں ، اور وہ خوش وخرم اور مطمئن ہوجاتا ہے، اور اگر خدانخواستہ وہ کافرانہ اور دنیادارانہ طرز فکر میں مبتلا ہوکر ان الجھنوں میں ہی تہ وبالا ہوتا رہا، تو اس کی زندگی، اور اس کا قلب بلکہ اس کا پورا وجود، نہیں بلکہ اس طرز کا پورا معاشرہ کھنکھجورے کے ہزار پاؤں میں پھنسا اضطراب میں لوٹتے لوٹتے، دم توڑ دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ، ان کا روئے سخن خاص طور پر علماء کی طرف ہے، فرماتے ہیں : سمعت نبیکم ا یقول من جعل الہموم ہما واحدا ہم آخرتہ کفاہ اﷲ دنیاہ ومن تشعبت بہ الہموم في احوال الدنیا لم یبال اﷲ في اي اودیتہا ہلک (ابن ماجہ مقدمہ: باب انتفاع بالعلم والعمل بہ)