فرماتے ہیں کہ ـ:الا من تاب وعمل صالحاً فاولئک یبدل اﷲ سیئاتہم حسنات وکان اﷲ غفوراً رحیماً (سورۃ الفرقان: ۷۰) مگر جو اﷲ کے حضور رجوع کرے، اور اچھا عمل کرے، تو اﷲ تعالیٰ اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے بدل دیتے ہیں ، اور اﷲ تعالیٰ مغفرت کرنے والے رحم کرنے والے ہیں ۔
دنیا والوں ، اور اہل ایمان کے نظریے اور عمل میں کتنا فرق ہے؟ اس پر غور کیجئے، ظاہر کو پکڑ کر اس کی الجھن میں گرفتار ہونا سرے سے غلط، بلکہ حماقت ہے۔ ایسے لوگوں سے زیادہ سمجھدار تو وہ کتا ہے، جسے لاٹھی، یا پتھر سے مارا گیا، وہ دیکھ رہا ہے کہ بدن پر چوٹ لاٹھی سے یا پتھر سے لگی ہے، لیکن جذبۂ انتقام میں نہ وہ لاٹھی پر حملہ کرتا اور نہ پتھر کو کاٹتا، وہ لاٹھی مارنے والے کی طرف دوڑتا ہے، یا اس سے بھاگتا ہے، ظاہری مصائب کی الجھن میں گرفتار ہونا اور اس کی تحقیقات میں مبتلا ہونا، محض لغو ہے، یہ طریقہ کفار کا ہے، اور اہل دنیا کا ہے، کافر ہی مطلق اہل دنیا ہوتا ہے۔
اہل دنیا کافران مطلق اند روز وشب در زق زق و در بق بق اند
کافر مطلق اہل دنیا ہیں ، یہ رات دن زق زق اور بق بق میں ہیں ۔
اہل ایمان ایسے نہیں ہوتے، ان کی سوچ، ان کا عقیدہ، ان کا عمل اور ان کی نظر، حجابات دنیا سے بلند اور بہت بلند ہوتی ہے، مومن دیکھتا ہے کہ عالم غیب میں ایک مکمل انتظام ہے، حکم الٰہی فرشتوں پر اترتا ہے، پھر اﷲ کی یہ فوج اس حکم کی تعمیل ونفاذ میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق لگ جاتی ہے۔ کوئی دعاء واستغفار کرتا ہے، کوئی مجرموں پر لعنت کرتا ہے، کوئی اس کی خبر آسمانوں کو پہنچاتا ہے، کوئی اسے زمین پر لے کر آتا ہے۔
مومن قرآن وحدیث کی خبر کے مطابق اپنے دید ومشاہدہ سے بڑھ کر اس حقیقت کا یقین کرتا ہے، پھر وہ مصائب کی بوچھار میں صبر ورضا کے ساتھ حق تعالیٰ کی جناب میں تضرع وزاری کرتا ہے اور استغفار اور اصلاح اعمال میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ مصائب کی یہ بدلیاں چھٹ جاتی ہیں ، اور اس کا دل توبۂ واستغفار کے آب زلال سے غسل کرکے تازہ دم