دیکھتے ہیں ، اور اسی میں الجھے رہتے ہیں ، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : یَعْلَمُوْنَ ظَاہِراً مِّنَ الْحَیٰوۃِ الْدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْآخِرَۃِ ہُمْ غَافِلُوْن (سورۃ الروم: ۷) یہ لوگ دنیوی زندگی کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں ، اور آخرت سے یکسر غافل ہیں ، یعنی یہ لوگ دنیا کو، اس کے کمانے کے طریقوں کو، اس کے حالات کو تو خوب جانتے ہیں ، اور اس سلسلے میں مہارت رکھتے ہیں ، لیکن دین کے معاملے میں ، اور آخرت میں کیا چیز نافع ہے، اس سے بالکلیہ جاہل اور مغفل ہیں ، نہ انھیں اس کی ذہانت حاصل ہے، اور نہ کچھ فکر ہے۔
لیکن ایمان والوں کا حال یہ نہیں ہے، وہ اس دنیا کے حجابات ظواہر سے گزر کر عالم غیب پر نگاہ جماتے ہیں ، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ، وہ دنیا کے ضرر کو اوریہاں کے نقصان کو سمجھتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آخرت میں اس کا عوض بہت بڑے نفع کی شکل میں ملنے والا ہے، تو وہ چھوٹے نقصان کو بڑے نفع کے یقین پر بآسانی گوارا کرلیتے ہیں ، اسی طرح وہ دنیا کے مصائب، تکالیف، دنیا والوں کے ظلم وستم کو دیکھتے ہیں ، قحط سالی، بے روزگاری، کاروبار میں گھاٹا، روزی کی تنگی، اور طرح طرح کے امراض سب دیکھتے ہیں ، مگر یہ جانتے ہیں کہ ان سب کے نزول کا سرچشمہ کہیں اور ہے، پھر وہ دنیا کی ان الجھنوں میں گرفتار ہونے کے بجائے اسی مرکز ظہور کا رخ کرتے ہیں ، اور اس رخ کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں ، اپنے اعمال واخلاق کا جائزہ لیتے ہیں ، نامناسب چیزیں اپنے سے دور کرتے ہیں ، بدن پر مکھی بار بار بیٹھتی ہے، تو عقل مند مکھی کو الزام نہیں دیتا، وہ دیکھتا ہے کہ جہاں مکھی بیٹھ رہی ہے، وہاں کوئی گندگی تو نہیں ہے، پھر اسے گندگی نظر آجاتی ہے، تو اسے صاف کردیتا ہے، اور مکھی اڑ جاتی ہے، اسی طرح مومن کسی نامناسب چیز کی یلغار دیکھتا ہے، تو اس الجھن میں نہیں پڑتا کہ یہ نامناسب کیا ہے؟ اسے الزام نہیں دیتا، وہ اس چیز کو دیکھتا ہے، جس پر یہ نامناسب چیز ٹوٹی پڑ رہی ہے، پھر وہ اسے دور کرتا ہے، توبہ کرتا ہے، معافی چاہتا ہے، اپنے احوال کو بدل لیتا ہے۔ پھر اس نامناسب چیز سے نجات بھی پالیتا ہے، اور جتنا جھیل چکا ہے، اس پر بے اندازہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجاتا ہے، اﷲ تعالیٰ ارشاد