البر، باب اذا احب اﷲ عبدہ)
ایک حدیث اور ملاحظہ ہو، رسول اﷲ ا نے فرمایا کہ ہر روز جب صبح ہوتی ہے، تو دو فرشتے اترتے ہیں ، ایک کہتا ہے اللّٰہم اعط منفقاً خلفاً، اے اﷲ دینے والے کو عوض عطا فرمائیے، اور دوسرا کہتا ہے اللّٰہم اعط ممسکاً تلفاً۔ اے اﷲ بخیل کے مال میں بربادی ڈال دیجئے (بخاری شریف:الزکوٰۃ باب قول اﷲ تعالیٰ ما من )
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ا کا ارشاد ہے کہ ایک شخص کسی صحرائی زمین میں تھا، اس نے اوپر ایک بدلی کے اندر ایک آواز سنی کہ فلاں کے باغیچہ کو سیراب کرو، پھر وہ بدلی ایک طرف چلی، اور ایک پتھریلی زمین پر برس گئی، وہ سارا پانی ایک نالے میں جمع ہوا، اور بہہ پڑا۔ یہ شخص اس پانی کے پیچھے چلا کہ کہاں جاتا ہے؟ دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کھیت میں بیلچے سے پانی پہونچا رہا ہے، اس نے پوچھا کہ بندۂ خدا! آپ کا کیا نام ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل کی آواز سے سنا تھا، پھر اس نے پوچھا، اﷲ کے بندے میرا نام کیوں پوچھتے ہو؟ کہا کہ میں نے اس بادل میں جس کا یہ پانی ہے، ایک آواز سنی تھی کہ فلاں کا باغ سیراب کرو، اس میں آپ کا ہی نام تھا، تمھارا اس کھیتی میں کیا عمل ہے؟ اس نے کہا کہ جب تم نے پوچھ ہی دیا ہے، تو سنو! میں اس کی پیداوار کو دیکھتا ہوں ، اور ایک تہائی صدقہ کردیتا ہوں ، ایک تہائی اپنے اہل وعیال کے لئے رکھتا ہوں ، اور ایک تہائی اس باغ میں واپس کردیتا ہوں ۔ (مسلم شریف الزہد باب الصدقۃ علی المساکین)
قرآن کی آیت کریمہ اور ان تمام حدیثوں سے یہ بات وضاحت سے سمجھ میں آتی ہے کہ عالم میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا ابتدائی سرا یہاں نہیں ، عالم غیب میں ہے جس طرح برقی قمقمے جلتے کہیں ہیں ، اور بجلی آتی کہیں اور سے ہے، اگر قمقمہ بجھ جائے، تو اس پر کوئی توجہ نہیں کرتا، بجلی کی جانب رخ کیا جاتا ہے، اسی مثال پر سمجھئے، کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ ایک وجود ظاہر ہے، اسے ظاہر کرنے والا کوئی اور ہے ، اور اس کامرکز ظہور کہیں اور ہے۔
یہاں سے اہل دنیا، اور اہل ایمان الگ الگ ہوتے ہیں ، اہل دنیا صرف ظاہر کو