بچائیے ان کو برائیوں سے، اور جن کو آپ بچادیں برائیوں سے اس دن، اس پر مہربانی کی آپ نے، اور یہ جو ہے، یہی ہے مراد پانی۔
آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ زمین میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کا تعلق صرف یہیں سے نہیں ہے، بلکہ فرشتوں کی ایک برگزیدہ جماعت ہے، جو عرش الٰہی کو تھامے ہوئے ہے، اور بہت سے فرشتے اس کے ارد گرد مصروف طواف ہیں ، یہ سب اﷲ کی حمد وثنا کے ساتھ زمینی مخلوقات پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں ، اور ان میں جو صاحب ایمان ہیں ، ان کے لئے مسلسل استغفار، دعائے رحمت اور دفع بلا کی درخواست کرتے رہتے ہیں ، ظاہر ہے کہ فرشتے وہی کرتے ہیں ، جس کا نھیں حکم ہوتا ہے، پس یہ سب کچھ وہ حکم خداوندی سے کرتے ہیں ، ان کی دعاؤں کا اثر زمین پر اترتا رہتا ہے۔
ایسے ہی جو لوگ سرکش اور باغی ہیں ، ان پر فرشتوں کی لعنت آتی ہے، فرماتے ہیں :إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ کُفّارٌأُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اﷲِ وَالْمَلَا ئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ(سورۂ بقرہ: ۱۶۱)۔ جو لوگ کافر ہوئے، اور کفر پر ہی مر گئے، ان پر لعنت اﷲ کی ہے، فرشتوں کی، اور لوگوں کی، سب کی۔
معلوم ہوا کہ زمین پر جو کچھ ہورہا ہے، اس کا سرا آسمان سے جڑا ہوا ہے، زمین تو ظہور کی جگہ ہے۔ ورنہ حقائق وہاں ہیں ، جہاں انسان کی نگاہ نہیں پہونچ پاتی، چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
وَفِی الْسَّمَائِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ (سورۃ الذاریات: ۲۲) اور آسمان میں تمھاری روزی ہے، اور جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، اس آیت میں مجاز نہیں ہے، حقیقت ہے، وہ یہ کہ روزی عالم غیب میں ہے، وہیں سے تدبیر اور انتظام سے اترتی رہتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ جب کسی امر کا فیصلہ کرتے ہیں تو عرش کو تھامنے والے فرشتے اﷲ کی پاکی بیان کرتے ہیں ، پھر اس آسمان والے فرشتے، جو ان سے متصل ہیں تسبیح پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا کے فرشتوں تک آپہنچتی ہے، اور پوری