اس سوال کا ایک جواب وہ ہے جو خود خالق کائنات نے دیا ہے، خالق کائنات کے فرستادہ رسولوں نے اسے سمجھایا ہے، یہی جواب عین حق ہے، اسی سے انسانی فطرت تسلی اور سکون پاتی ہے، اس جواب کے بعد کوئی سوال باقی نہیں رہتا بلکہ جہد وعمل اور سعی وکاوش کا صحیح رخ متعین ہو جاتا ہے اور اس پر چل پڑنے کا حوصلہ بھی بیدار ہو جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم قرآن وحدیث کی جانب رجوع کرتے ہیں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سارے نظام کا آغازکار عالم غیب میں ہے، وہیں احکام صادر ہوتے ہیں ، وہیں انتظام مرتب ہوتا ہے، اور وہیں سے وقت وقت پر ان انتظامات کا نزول ہوتا ہے، اور ان سارے انتظامات پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی ایک برگزیدہ مخلوق یعنی فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، جو منشاء ا لٰہی سے ایک سر مو انحراف نہیں کرتے:لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ ۔
اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ یُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَیُسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْیٍٔ رَحْمَۃً وَّعِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۔ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہِمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ وَقِہُمُ الْسِّیِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ الْسِّیِّئَاتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (سورہ مومن ۷-۹) اور جو لوگ اٹھا رہے ہیں عرش، اور جو اس کے گرد ہیں ، پاکی بولتے ہیں اپنے رب کی خوبیوں کے ساتھ، اور اس پر یقین رکھتے ہیں ، اور گناہ بخشواتے ہیں ، ایمان والوں کے، کہ اے ہمارے رب!آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر شے کو وسیع ہے، پس ان لوگوں کی مغفرت فرمادیجئے، جنھوں نے توبہ کی ، اور آپ کی راہ پر چلے اور انھیں جہنم کے عذاب سے بچالیجئے ، اور داخل کیجئے ان کو بسنے کے باغوں میں ، جن کاآپ نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور جو کوئی نیک ہو ان کے باپوں میں اور عورتوں میں اور اولاد میں ، بے شک آپ ہی ہے زبردست ، حکمت والے ہیں ، اور