رشید احمدگنگوہی قدس سرہٗ کی مراسلت جو تذکرۃ الرشید میں من وعن درج ہے ،قابل مطالعہ ہے ۔ اس سے بدعت کی حقیقت اور اس کی قباحت وشناعت خوب واضح ہوتی ہے۔
تذکرۃ الخلیل میں حضرت مولاناشاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری قدس سرہٗ کاایک اور ارشاد مفصل نقل کیا گیا ہے ، جس سے حق وباطل اور سنت وبدعت کی شناخت آسان ہوجاتی ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے ، اس کا مکمل متن نقل کرتا ہوں ، مصنف تذکرۃ الخلیل لکھتے ہیں :
’’ ایک دن آپ کی مجلس میں بدعت وسنت کے مسائل اختلافیہ کی بحث ہونے لگی ، آپ دیر تک سنتے رہے ، اور آخر میں فرمایا کہ میرے نزدیک علاوہ دلائل علمیہ کے حق وباطل پہچاننے کاایک معیار اور بھی ہے ، وہ یہ کہ قدرت نے ہر چیز میں اس کے ہم جنس کی طرف کشش کا مادہ رکھاہے ۔ ؎ کبوتر باکبوتر باز باباز
اور یہ قدرت کا عطیہ جس کو فطرت کہنا چاہئے ، اجسام ہوں یا اعراض، سب ہی میں جاری وساری ہے ، پس جس فعل کے متعلق یہ شبہ ہو کہ نہ معلوم حق ہے یا باطل؟ اس میں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی طرف میلان کن قلوب کا ہوا، اور کشش کس قسم کے لوگوں کی ہے ؟ اگر دیکھو کہ بددین فساق وفجار کو ابتداء ً اس کی طرف حرکت ہوئی ہو ، اوروہی قلوب جوش وخروش کے ساتھ اس کی طرف لپکتے ہیں ، تو سمجھ لوکہ اس فعل میں ضرور ظلمت ہے ، اگر چہ ظاہری صورت نورانی اور دینی معلوم ہوتی ہو ، کیونکہ اس میں نور ہوتا ، تو ظلمانی قلوب کو جذب نہ کرتا ، بلکہ وہ اس سے بھاگتے اور نورانی قلوب اولیاء وصلحاء کے اس کی جانب کھنچتے ، اور اگر کسی فعل کو دیکھو کہ دینداراہل اﷲ اس کی طرف جاتے ، اور عوام وبازاری اس سے بھاگتے ہیں ، تو سمجھ لوکہ ضرور اس فعل میں نورانیت ہے کہ اہل نور کے قلوب کو اس کی طرف کشش ہوئی، اور