سے نقل کروں ، حضرت رائے پوری پر زُہد وتقویٰ اور بزرگی ومشیخت کا غلبہ تھا ، اس لئے علم وفضل کے کمال کے لحاظ سے زیادہ معروف نہیں ہوئے ، ورنہ ان کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا ، حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے اخص خلفاء میں تھے ۔
تذکرۃ الخلیل کے مصنف مولانا عاشق الٰہی میرٹھی علیہ الرحمہ ، انھیں حضرت رائے پوری کے تذکرے میں لکھتے ہیں :
’’ہر چند کہ آپ خلق مجسم تھے ، مگر خلافِ سنت عقیدہ والوں سے آپ کو کمالِ نفرت تھی ، ایک مرتبہ آپ کے کسی مرید نے ضلع …… کے ایک عالم کی صفائی پیش کرتے ہوئے یوں کہا کہ حضرت ! وہ تو حضور کے رشتہ دار ہیں ، اور بالکل ہمارے ہم خیال ہیں ، صرف بعض عقائد میں کچھ یوں ہی سا جزوی اختلاف ہے ، جیسا باہم ائمہ میں ہے ، وہ صاحب اپنی تقریر ختم نہ کرپائے تھے ، کہ آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار پیدا ہوگئے ، اور آپ نے تعجب کے ساتھ فرمایا کہ ہائیں عقائد میں اور اختلاف ؟ یہ تو جزوی ہونا آپ کو خود تسلیم ہے ، میرا تجربہ تو یہ ہے کہ عقائد میں جز تو جز اگر بالکل بھی اختلاف نہ ہو ، مگر شک اور شبہ کا درجہ ہو ، تو وہ بھی برباد اور گمراہ ہوئے بغیر نہیں بچتا ، پھر اس کو ائمہ کے اختلاف سے تشبیہ دینا بڑی ہی دلیری کی بات ہے ، پس چاہئے کہ عمل میں کتنی کمزوری ہو ، مگر خدا نہ کرے کہ کوئی مسلمان بدعت کو سنت سمجھے ، یا سنت کے سنت ہونے میں شک لاوے کہ یہ بلائے بے درماں مہلک اور قاتل ہے (تذکرۃ الخلیل : ۲۵۵)
بدعت کے سلسلے میں ہمارے اکابر کا یہ رویہ رہا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بدعات کا جتنا پھیلاؤ ہورہا ہے ، سنت کا نور گم ہوجاتا ، لیکن ان حضرات کی بصیرت ، فہم خداداد ، علمی رسوخ ، تقویٰ وطہارت ، پاکیزگی ٔ قلب اور نورانیت روح ووِجدان کی وجہ سے بدعت کا بدعت ہونا نمایاں ہے ، اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانوی نور اﷲ مرقدہٗ اور حضرت اقدس مولانا