تتجاری بھم تلک الأھواء کما یتجاری الکلب بصاحبہ لایبقیٰ منہ عرق ولا مفصل إلا دخلہ [احمد وابوداؤد]( مشکوٰۃ شریف : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں بدعتیں اس طرح سرایت کریں گی جیسے کتنا کاٹنے کی ہڑک بدن کے اندر سرایت کرجاتی ہے ، ہرہررگ اور ہرہر جوڑ میں داخل ہوکر رہتی ہے۔
کتا جب کاٹتا ہے تو اس سے ایک شدید قسم کی بیماری جسم میں پیدا ہوجاتی ہے ، جو آدمی کے رگ وریشے میں پھیل جاتی ہے ، پھر آدمی کتے کی طرح بھونکنے لگتا ہے، اور پیاس سے تڑپتا ہے ، اور بڑی سخت موت مرتا ہے، یہ مثال رسول اﷲ ﷺ نے اہل بدعت کی دی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدعت کتنی سخت معصیت اوربیماری ہے، اور واقعی یہ تجربہ ہے کہ بدعتی کو اپنی بدعت میں اتنا انہماک اور غلو ہوتا ہے کہ اس کے سامنے شریعت کے دوسرے احکام ماند پڑجاتے ہیں ، وہ اسی معیار پر ہر ایک کو جانچتا ہے ، اسی کو حق وناحق کی بنیاد بناتا ہے ، پھر اس میں تشدد اور جارحیت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ دیکھاجاتا ہے کہ نمازوں کی فکر نہیں ہے ، لیکن بدعت کے عمل پر مارا ماری ہے، مالِ حرام کا خوف نہیں ہے ، مگر عمل بدعی کے فوت ہوجانے سے دل لرزتا ہے، تلاقت قرآن کا اہتمام نہیں ، مگر بدعی وظائف ترک نہ ہوں ۔ بدعت کے جس ماحول پر نظر ڈالئے یہ تماشا جابجا ملے گا ، اس طرح دین میں تحریف ہوتی ہے ، دینی اور شرعی اصطلاحوں کے معانی بدل جاتے ہیں ، ہر ایک بدعت اپنی ایک اصطلاح رکھتی ہے، الفاظ اصطلاح کے وہی ہوتے ہیں ، جو شریعت میں رائج ہیں ، لیکن معانی میں بہت فرق آجاتا ہے ، اس سے تحریف راہ پاتی ہے، اس لئے بدعت کی معصیت ، دیگر معاصی سے شدید تر ہے ، بدعت سے عمل بھی بگڑتا ہے ، اور عقیدہ میں بھی خرابی پڑتی ہے ، ہمارے اکابر رحمہم اﷲ (علماء دیوبند ) کو بدعات سے بغایت نفرت تھی ۔
مضمون کے خاتمہ پر مناسب سمجھتا ہوں کہ علماء دیوبند کے حلقے کی ایک بزرگ ترین شخصیت حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری نور اﷲ مرقدہ کے دو ملفوظ تذکرۃ الخلیل