جو قوم گمراہی اختیار کرتی ہے ، تجربہ ہے ، اور خود قرآن شاہد ہے کہ اس کے مزاج میں تشدد اور جھگڑے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، کفار بھی جھگڑالو تھے ، ان کی بحث حق کے اثبات کے لئے نہیں جھگڑنے کے لئے ہوتی تھی ، قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ : إَنَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِحَصَبُ جَہَنَّمَ (سورۃ الانبیاء : ۹۸) تم لوگ اور جن کی تم اﷲ کے علاوہ عبادت کرتے ہو ، جہنم کے ایندھن ہیں ۔ اس آیت میں بتایا کہ مشرکین بھی اور ان کے معبودانِ باطلہ یعنی پتھر کے بت اور شیاطین بھی جہنم میں گرنے والے ہیں ، اس پر مشرکین نے حضرت نبی کریم ا سے کٹ حجتی کی کہ اچھا ہمارے بت بہتر ہیں یا عیسیٰ ؟ (ں ) آخر عبادت تو حضرت عیسیٰ ں کی بھی کی جاتی ہے، تو اگر وہ بھی جہنم میں جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں کہ ہم اور ہمارے بت بھی ان کے ساتھ جہنم میں جائیں ، اس پر فرمایا : وَقَالُوْا أَاٰلِھَتُنَاخَیْرٌأَمْ ھُومَاضَرَبُوْہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ،ان کی اس بات کو حق تعالیٰ نے کٹ حجتی قرار دیا ، کیونکہ اس سلسلۂ بیان میں جہاں اﷲ تعالیٰ نے بتوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا ہے ، ایک اور بات ارشاد فرمائی ہے ، اسے یہ گول کرگئے ، فرمایا کہ: إِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِنَّا الْحُسْنیٰ اُوْلٰئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ (سورۃ الانبیاء :۱۰۱)وہ لوگ جن کے واسطے ہماری جانب سے خیر اور بہتری پہلے سے متعین ہوچکی ہے ،و ہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ ں کے بارے میں حق تعالیٰ کی اطلاع اور گواہی ہے کہ وہ ان لوگوں میں ہیں ، جن کے حق میں خیر اور بھلائی کا اعلیٰ مرتبہ یعنی نبوت کی برگزیدگی پہلے سے متعین ہے ، پھر جہنم کے قریب کیونکر ہوں گے ، یہ بات سامنے کی ہے ، مگر جھگڑنے والے اپنے خلاف مطلب باتوں کو نظر انداز کرکے کٹ حجتی کرتے ہیں ۔
اہل بدعت کا بھی یہی خاصہ ہے ، وہ تلاش حق کے لئے نہیں ، محض جھگڑنے کے لئے شوشے نکالتے ہیں ، پھر اسی شوشے کی بنیاد پر لڑتے ہیں ، بدعت اور گمراہی کس طرح رگ وریشے میں سرایت کرتی ہے ، پھر وہ پوری طرح اہل بدعت کو اپنی گرفت میں لیتی ہے ، اسے بھی رسول اﷲ ا کی زبانِ حق ترجمان سے سنئے ! فرمایا : وإنہ سیخرج فی امتی اقوام