استحکام ہوجاتا ہے کہ لوگ اسے سنت قائمہ سمجھنے لگ جاتے ہیں ، پھر جب اس کی تردید کی جاتی ہے ، تو شور ہوتا ہے کہ سنت کی مخالفت ہورہی ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص کا ارشاد مسنددارمی میں نقل کیا گیا ہے کہ ’’تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا، جب تم پر فتنہ چھا جائے گا ، ایسا طویل ومدید فتنہ کہ بڑی عمر کا آدمی اس میں انتہائی بوڑھا ہوجائے گا، اور چھوٹی عمر کا بچہ جوان ہوجائے گا، اور لوگ اسی فتنہ کو سنت قرار دے لیں گے، کہ اگر اس میں تبدیلی کی جائے گی ، تو لوگ کہیں کہ سنت بدل دی گئی۔‘‘
(مسند دارمی ،جلد۱،ص: ۲۷۸، باب تغیر الزمان ومایحدث فیھا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل بدعت کے قلب ودماغ میں بدعت کا ایسا رسوخ اور استحکام ہوجاتا ہے کہ اس کے خلاف وہ سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، اور اگر اس بدعت کا خاتمہ کیا جاتا ہے ، تو بدعت نہیں ، اسے سنت سمجھ کر واویلا کرتے ہیں کہ سنت بدل دی گئی ۔ چنانچہ تجربہ ہے کہ اہل بدعت کو سنت اور فرض کے سلسلے میں تو نہیں ، البتہ بدعت کے سلسلے میں بہت تشدد ہوتا ہے، اہل سنت اور اہل حق کے مزاج میں تشدد نہیں ہوتا ، حق کے وسیع دائرے میں اچھی خاصی لچک اور وسعت ہوتی ہے، البتہ فرائض و سنن کو مضبوطی کے ساتھ تھامتے ہیں ، مگر اہل بدعت کا شعار یہ ہے کہ چاہے فرائض ترک ہوجائیں ، حرام میں مبتلا ہوجائیں ، سنتیں سرے سے متروک ہوجائیں ، لیکن بدعت والا عمل ترک نہ ہونے پائے ۔
اﷲ کے رسول ا ارشاد فرماتے ہیں :ماضل قوم بعد ھدی کانوا علیہ إلا اوتوا الجدل ثم قرأ رسول اﷲ ﷺ مَاضَرَبُوْہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ[احمد، ترمذی ، ابن ماجۃ]( مشکوٰۃ شریف:باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
جب بھی کوئی قوم ہدایت پر ہونے کے بعد گمراہ ہوتی ہے ،تو عناد اور جھگڑے میں مبتلا کردی جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول اﷲ ا نے یہ آیت پڑھی: مَاضَرَبُوْہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْن،(سورۃ الزخرف:۸۵) انھوں نے یہ مثال محض جھگڑنے کیلئے بیان کی ہے، بلکہ یہ جھگڑالو قوم ہی ہے۔