معلوم ہواکہ دین کی حفاظت ہی کے لئے سہی ، لیکن دینی رنگ میں کوئی نیا طریقہ اختیار کرنا ایک پُر خطر راستہ ہے، ابتداء میں تو وہ قابل قبول ہوگا، مگر حدود کی رعایت نہ ہوگی ، تو اسے غلو اور اس کے نتیجے میں بدعت بنتے دیر نہ لگے گی۔
اس طرح کی بدعات غالباً غیر شرعی قیاسات کی بناپر وجود میں آتی ہیں ، شاید عیسائیوں نے سوچا ہوکہ سیّدنا عیسیٰ ں زندگی بھرمجرد رہے ، بیوی بچوں کی الجھن سے آزاد رہے، نہ کوئی گھر بنایا نہ کسی دَر کے پابند رہے ، حضرت کے یہاں صبح کہیں ، شام کہیں کا سماں ہوتا، سیاحت فرماتے ، لوگوں کو دینی احکام ومواعظ تلقین فرماتے ، اسی طرح ان کی والدہ محترمہ مقدسہ بھی نکاح کی قید سے آزاد رہیں ، اﷲ نے ایک برگزیدہ نشانِ قدرت انھیں بنایا تھا ، وہ ہمہ تن اور ہمہ دم مصروفِ عبادت رہتیں ، اور غیب سے ان کے لئے رزق آیا کرتا ، شاید اسی خیال سے یہ سوچ کر کہ اپنے پیشوا کے طریقۂ زندگی کی پیروی بھی ہوگی، اور دین کی حفاظت بھی ہوگی،رہبانیت اختیار کی ہوگی ، لیکن برا ہو’’ غلو‘‘ کا ، یہ کسی چیز کو اپنی حد پر نہیں چھوڑتا، اسی لئے رسول اﷲ ا نے اس پر امکانی حد تک بندش لگادی ہے۔ بدعات کی دنیا میں اس طرح کی مثالیں بہت ملیں گی کہ کسی دینی جذبہ سے کوئی غیر منصوص کام شروع کیا گیا ، اور وہ رفتہ رفتہ غلو اور پھر بدعت ہونے تک جاپہونچا۔ ہم نے الگ الگ طبقوں سے ایک ایک عام فہم مثال تحریر کردی، ورنہ بریلویت اور اہل بدعت کے تصوف کا پورا گلزار اسی طرح کی خوبصورت بدعات سے لہلہا رہا ہے۔ نذر ونیاز ، تیجہ فاتحہ، عرس وسماع، قبروں پر اذان اور بہت سی رسوم کی ابتداء کسی دینی جذبہ اور دینی رنگ میں ہوئی ، ان میں متعدد دینی مصلحتوں کا لحاظ رکھاگیا تھا ، مگر کیا ہوا؟ بدیر یا جلد یہ سب رسمیں بدعت کے چہ بچہ میں جاگریں ۔
بدعت کا دستور یہی ہے کہ وہ شریعت کے مد مقابل بن کر نہیں آتی، وہ عموماً دین کی کسی مصلحت اور کسی دینی مسئلے کی حمایت میں ظاہر ہوتی ہے، اور بہت ایسا ہوتا ہے کہ کسی مسلم بزرگ شخصیت کے ساتھ منسوب ہوجاتی ہے ، اس میں دینی مصلحت وحمایت اور اس بزرگ کی نسبت کی وجہ سے تقدس کا رنگ جم جاتا ہے، پھر بدعت ظاہر ہونے تک اس میں ایسا