اس کے حدود کی رعایت کا اہتمام نہیں کیا گیا ، حدود کی رعایت یہ تھی کہ وہ جس درجہ کاکام تھا ، اسے اسی درجہ میں رکھا جاتا ، وہ ایک وسیلہ اور ذریعہ کے طور پر اختیار کیا گیا، تو وسیلہ اور ذریعہ ہی رہتا ، اسے مقصودِ دینی نہ قرار دیاجاتا، اور نہ اس کے ساتھ مقصودِ دینی جیسا طرزِ عمل اختیار کیاجاتا، پھر جس مقصد سے اختیار کیا گیا تھا ، وہی مقصود پیش نظر رہتا، اس کو کسی اور مقصد ذریعہ نہ بنایا جاتا، عیسائیوں نے ان دونوں باتوں میں کوتاہی کی ، رہبانیت کو مقاصد دینی میں شامل کردیا ، اس کی اہمیت اس درجہ بڑھادی کہ رہبانیت اختیار کرنے والے افراد عیسائی دنیا میں نہ صرف امتیازی اوصاف سے متصف کئے گئے ، بلکہ ان میں خدائی اختیارات بھی تسلیم کئے گئے ، ایک ایسا عمل جسے اﷲ نے مقرر نہیں کیا تھا ، از خود لوگوں نے اختیار کیا تھا ، اس کو بجالانے والا بزرگی اور ولایت کے اتنے بلند منصب پر فائز مان لیاجائے کہ خدائی اور بندگی کی حدیں گڈمڈ ہوجائیں ، غلو کا آخری درجہ ہے ، انھوں نے رہبانیت کو اس کی حد پر نہیں رہنے دیا، بلکہ عام ا حکام شرع سے اس کا درجہ بہت بڑھادیا۔ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا کی ایک صورت یہ ہے۔
دوسری صورت حق رعایت کی یہ تھی کہ جس مقصد کے لئے اسے اختیار کیا ، وہی مقصد پیش نظر رہتا، مگر راہبوں نے یہاں بھی حدودکی رعایت توڑی اور رہبانیت کو عزت وجاہ اور دولت وحشمت کا ذریعہ بنالیا، وہ اس کی آڑ میں فواحش ومنکرات کا ارتکاب کرتے تھے ، کلیسا کی تاریخ ان دونوں قسموں سے گناہوں سے لبریز ہے۔
(۳) تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس طرزِ عمل میں جو لوگ صاحب ایمان ہوں گے، اور حدودِ شرعیہ کی رعایت کے پابند ہوں گے ، وہ تو اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ، اور جولوگ اس کے برخلاف غلو اور خلاف مقصد راہیں اختیار کریں گے وہ فاسق قرار پائیں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایمان بھی غیر معتبر ہوگا۔
(۴) چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ اس طریقۂ عمل میں جو لوگ غلو اور تعدی حدوداﷲ کی وجہ سے فاسق ہوئے ہیں ، زیادہ تعداد انھیں کی ہوتی ہے۔