چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا :ابْتَدَعُوْھَا انھوں نے نئی بات نکالی ۔مَاکَتَبْنَاھَا عَلَیْھِمْ، ہم نے اسے مقرر نہیں کیا تھا ۔ إِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اﷲِ ، ان کامقصد محض اﷲ کی رضاجوئی تھی ، اس طریقہ پر اﷲ نے نکیر نہیں کی، اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ بدعت نہیں ہے جو شریعت کی اصطلاح ہے، اور حق تعالیٰ نے اسے رد نہیں کیا، یہ ابتدائی حالت ہے، اسی حالت پر یہ اختراع قائم رہے ، تو کچھ مضائقہ نہیں ۔
عیسائی علماء وصلحاء نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے رہبانیت اختیار کی تھی، رہبانیت کا تعارف اور اس کے اختیار کرنے کی ضرورت تفسیر معارف القرآن مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع علیہ الرحمہ میں ملاحظہ فرمائیے، لکھتے ہیں :
’’رہبانیت، رہبان کی طرف منسوب ہے، راہب اور رہبان کے معنی ڈرنے والا ، حضرت عیسیٰ ں کے بعد جب بنی اسرائیل میں فسق وفجور عام ہوگیا، خصوصاً ملوک اور رؤسا نے احکام انجیل سے کھلی بغاوت شروع کردی، تو ان میں کچھ علماء وصلحاء تھے ،انھوں نے اس بد عملی سے روکا تو انھیں قتل کردیا گیا، جو کچھ بچ رہے،ا نھوں نے دیکھا کہ اب منع کرنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ، اگر ہم ان لوگوں میں مل جل کررہیں ، تو ہمارا دین برباد ہوگا ، اس لئے ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی سب جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑدیں ، نکاح نہ کریں ، کھانے پینے کے سامان جمع کرنے کی فکر نہ کریں ، رہنے سہنے کے لئے مکان اور گھر کا اہتمام نہ کریں ، لوگوں سے دور کسی جنگل ، پہاڑ میں بسر کریں ، یا پھر خانہ بدوشوں کی سی زندگی سیاحت میں گزار دیں ، تاکہ دین کے احکام پر آزادی سے پورا پورا عمل کرسکیں ، ان کا یہ عمل چونکہ خدا کے خوف سے تھا ، اس لئے ایسے لوگوں کو راہب یا رہبان کہاجانے لگا ، ان کی طرف نسبت کرکے ان کے طریقہ کو رہبانیت کہا جانے لگا۔
( معارف القرآن،جلد :۸، سورۃ الحدید)
(۲) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایک کام جو کسی دینی مصلحت کے لئے اختیار کیا گیا ،