تفصیلات کے برگ وبار نکلنے شروع ہوئے ، اور ان میں وسعت اور استحکام پیدا ہوا، تو سب چونکے ، مخصوص اہل بصیرت تو ابتداء میں ہی چوکنے ہوگئے تھے ، اور انھوں نے تنبیہ بھی کردی تھی ، مگر عام لوگوں نے اسے تنگ نظری پر محمول کیا اور سمجھے کہ یہ جملہ معصوم ہے ، مگر بعد میں سب کو احساس ہوگیا کہ ؎
قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید
بدعت اپنی ابتداء میں کیا ہوتی ہے؟ اور بعد والے اس میں کیا الجھن ڈال دیتے ہیں ؟ اس کی طرف اشارہ بلکہ قدرے وضاحت حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود فرمادی ہے ، بدعات پر غور کرنے کے لئے وہ آیت رہنما ہے، سورۂ حدید میں عیسائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً وَّرَھْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْھَا مَاکَتَبْنَاھَا عَلَیْھِمْ إِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اﷲِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا فَآتَیْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْھُمْ أَجْرَھُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فَاسِقُوْنَ( سورۃ الحدید :۳۸)اور ہم نے ان کے (حضرت عیسیٰ ں ) پیچھے چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی رکھ دی اور رہبانیت بھی رکھی ، جس کو انھوں نے خود ہی ا ختراع کیا ، ہم نے ان پر اسے نہیں لکھا تھا ، یہ اختراع انھوں نے محض اﷲ کی رضامندی کے لئے کیا تھا ، لیکن جیسا اسے رہنا چاہئے تھا، نباہ نہ سکے ، پھر ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان دار تھے ، ان کا بدلہ دیا، اور بہت ان میں نافرمان تھے۔
اس آیت پر غور کرنے سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں :
(۱) اوّل یہ کہ بعض اوقات امت کے علماء وصلحاء محض اﷲ کی خوشنودی ورضاجوئی اور اپنے دین کی حفاظت کی خاطر بعض ایسے ذرائع اختیار کرتے ہیں ، جن کا انھیں حکم نہیں ہوتا، یعنی وہ شرعی احکام میں داخل نہیں ہوتے ، لیکن دینی مصلحت سے انھیں اختیار کرلیتے ہیں ، یہ ہوتی تو ایک نئی بات ہے، لیکن بذات خود دین میں مقصود ومطلوب نہیں ہوتی، صرف کسی مقصد دینی کے حصول کے لئے بطور ذریعہ کے ہوتی ہے، اوراسی نسبت سے محمود ہوتی ہے،