نے عرض کیا ، بدعت کہتے ہیں دین میں نئی بات کا اضافہ کرنے کو ، اور معلوم ہے کہ شریعت میں فروعی اختلافی مسائل مثلاً قرأۃ خلف الامام، آمین بالجہر، وضع یدین تحت السرہ، جلسۂ استراحت ، رفع یدین کا معاملہ دورِ صحابہ بلکہ دورِ نبوت سے رہا ہے، اور لوگ مختلف طریقوں سے عمل کرتے رہے ہیں ، کسی نے کسی کے خلاف اصرار نہیں کیا ، نہ کسی مسئلہ کو خلافِ سنت کہا ، نہ کسی کی تضلیل وتفسیق کی، اب آپ لوگوں نے دین میں ایک نئی بات نکالی ، حدیث کے کسی ایک پہلو کو لے کر اَڑ گئے ، اور اس کے علاوہ کو خلافِ سنت کہنے لگے، اور اسی کو آپ نے اپنا دین ومذہب بنالیا ، یہی آپ کے نزدیک معیارِحق و باطل بن گیا، اسی کی روشنی میں عقائد ڈھلنے لگے، جبکہ اس غلو ،ا صرار اور تنگ نظری کا دین میں …اس دین میں جس پر رسول اﷲ ا حضرات صحابہ کو چھوڑ کر گئے تھے… پتہ اور نشان نہیں ہے، اور آپ کے دین کے لئے یہی مابہ الامتیاز بنا ہوا ہے، پس یہ بدعت ہے، اس پر وعظ کہہ دوں ؟ تو وہ ٹھنڈے ہوگئے پھر دوبارہ انھوں نے دعوت نہیں دی، خاموشی سے چلے گئے۔
اس موضوع پر غور کیجئے تو بدعت اور غلو کا وجود خلافِ شریعت کسی معاملہ سے نہیں ہواہے، بلکہ ایسے مسائل واحکام کی بنیاد پر ہوا ہے جن کا ثبوت صحیح حدیثوں سے ہے، اور ظاہر ہے کہ جب حدیث صحیح پیش کی جائے گی ، جو صحیح ہونے کے ساتھ صریح بھی ہو، تو کس کی جرأت ہے کہ اس پر نکیر کرے ، مگر اس کو اتنا بڑھایا گیا کہ بالآخر اس کا انجام بدعت کی حد میں داخل ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا، اور اصل دین کا حلیہ بگڑگیا۔
(۴) ایک ذی استعداد عالم اور مفتی ، جماعت اسلامی کے ایک بڑے ادارے میں استاذ اور صاحب افتاء تھے ، جماعت اسلامی کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہے، جو انگریزی کی تہذیب اور اسلامی احکام دونوں کو ایک ساتھ آمیز کردینے بلکہ باہم گوندھ دینے سے تیار ہواہے ، اس لئے اسے ماأنا علیہ وأصحابی (رسول اکرم ا نے فرمایا تھا کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ، جس میں ایک جماعت ناجی (نجات پانے والی) ہوگی ، صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کون سی جماعت ہوگی ، فرمایا کہ وہ لوگ اس طریقے پر ہوں گے جس پر میں اور میرے