دیا، پھر بہت ہنگامہ ہوا، یہاں تک کہ اس قول حق کی پاداش میں علماء حق کو توہین رسالت کا مجرم گردانا گیا، اور ڈیڑھ دو صدی بیت جانے کے بعد بھی اب تک یہ شور وغوغا قائم ہے۔ حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید سے حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ تک اور پھر اس کے بعد علماء دیوبند کا پورا طبقہ کفر کے فتاویٰ کی زد میں ہے، لیکن حق یہی ہے کہ محفل میلاد جس ہیئت والتزام کے ساتھ رائج ہے وہ دین میں ایک نئی اختراع ہے، اور بدعت ہے۔
(۲) حضور اکرم ا کی آل واولاد اور آپ کے اقرباء جنھوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور آپ کی نصرت کی ، ان کی محبت عین ایمان ہے، امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ، سیدنا حضرت حسن وسیدنا حضرت حسین رضی اﷲ عنہما، اوران دونوں بزرگوں کی مقدس ماں فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنہا کی محبت سے کس کو انکار ہوسکتاہے؟ ایک فرقہ نے ان حضرات کی محبت کو محبت کی حد سے نکال کر اتنا غلو کیا کہ اس فرقہ کو مسلمانوں کے زمرے میں شمار کرنا مشکل ہوگیا، حالانکہ محبت کا یہ مدعی فرقہ اپنے کو مومن ہی کہتا ہے، اور باقی تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتا ہے، ابتدائی مرحلہ بہت خوشنما ہے، مگر جب اسے تخصیصات کی قیدوں میں جکڑا گیا تو کتنا بھیانک بن گیا۔بدعت کی ابتداء اور انتہاء کی عموماً یہی شکل ہوتی ہے۔
(۳) ایک ایسا شہر جہاں احناف کے ساتھ غیر مقلدین کا مقابلہ اور مجادلہ چلتا رہتا ہے ، بسلسلہ وعظ میرا وہاں جانا ہوتارہتا ہے، اور بساواقات ہفتہ عشرہ وہاں قیام ہوتا ہے، وہاں میرے طالب علموں کی تعداد بہت ہے، اور ان کے واسطے سے اس شہر کے لوگ ایک تعلق محبت کا رکھتے ہیں ، غیر مقلدین بھی میرے وعظ میں شریک ہوتے ہیں ، لیکن وہ اپنی مساجد میں وعظ کے لئے مجھے دعوت نہیں دیتے ۔ ایک بار ایک صاحب نے جمعہ میں مجھے دعوت دی کہ چل کر ہماری مسجد میں وعظ کہئے ، میں نے یونہی رواروی میں پوچھ لیا کہ کس موضوع پر وعظ کہنا مناسب ہوگا، فرمانے لگے ’’بدعت‘‘ کے موضوع پر، میں نے عرض کیا ،آپ کی مسجد میں چونکہ صرف اہل حدیث طبقہ ہوگا، اس لئے میں وہاں اس بدعت پر وعظ کہوں گا، جس میں آپ کا طبقہ مبتلا ہے، تو وہ چونکے اور کہنے لگے ، ہم تو بدعت میں بحمد اﷲ مبتلا نہیں ہیں ، میں