عام گناہ براہ راست شریعت سے ٹکراتا ہے، وہ حکم شریعت کے بالمقابل سامنے سے آتا ہے، اس کا دین وشریعت کے خلاف ہونا بالکل نمایاں ہوتا ہے ، اسے کوئی گناہ کہے ، دین سے بغاوت کہے،شریعت سے انحراف کہے تو کسی کو نہ استعجاب ہوگا، نہ اعتراض! لیکن ’’بدعت‘‘ کبھی سامنے سے کھلم کھلا نہیں آتی ہے، یہ کوئی ایسا دروازہ تلاش کرتی ہے جس کے خلاف شریعت ہونے کا وہم نہیں ہوتا، بظاہر اس دروازے سے داخل ہونے میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی ، بلکہ یہ دروازہ اور اس میں داخل ہونا نظر بظاہر مستحسن معلوم ہوتا ہے، لیکن اس میں داخل ہوجانے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوتی ہے ، اسے ’’بدعت‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ، اس کی چند ایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
(۱) رسول اکرم ا کی محبت فرض ہے، اس فرض کی ادائیگی کے لئے جو بھی شرعاً جائز اسباب ہوں گے انھیں اختیار کیاجاسکتا ہے، آپ کی اطاعت ، آپ کا تذکرہ، درود شریف کی کثرت ، آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ، آپ کی شان میں نعتوں کا پڑھنا اور سننا، یہ وہ اسباب ہیں جن سے آپ کی عظمت ومحبت پیدا بھی ہوتی ہے اور بڑھتی بھی ہے! یہ سب امور اگر شریعت کے احکام کے مطابق عمل میں لائے جائیں ، تو کسی کو ان پر نکیر کرنے کا حق نہیں ہے، پھر دیکھئے کہ اسی راہ سے ایک چیز داخل ہوئی ، جس کا نام ’’محفل میلاد‘‘ ہے ، یہ محفل حضور اکرم ا کی محبت میں اور آپ کی محبت کی تحصیل واضافہ کے لئے منعقد کی گئی، یہ محفل اپنی سادہ شکل میں بالکل جائز تھی، اس سے ایک افضل بلکہ فرض مقصود ادا ہوتا تھا ، اس لئے یہ بالکل قابل اعتراض نہ تھی، مگر آہستہ آہستہ اس محفل کی ایک خاص شکل متعین ہوتی چلی گئی ، اس کے کچھ لوازم وآداب مقرر کئے گئے، کچھ خاص خاص مضامین کی پابندی کی گئی، کئی ایک رسمیں اس کے ساتھ التزاماً جوڑی گئیں ، اورپھر یہ خاص شکل وہیئت انھیں لوازم وآداب اور مضامین ورسوم کے ساتھ مقصود بن گئی یہاں تک کہ ان کے بغیر محفل میلاد یا ذکر رسول کا خیال ہی کالعدم ہونے لگا، اور اسی کو ایک درجہ میں محبت رسول کا معیار قرار دے دیاگیا، اور شریعت میں اسے مقاصد کے درجہ میں پہونچادیاگیا، تو علماء حق نے اس کے بدعت ہونے کا فتویٰ