ناخواندہ اور دین سے غافل افراد نہیں ہوتے ، علماء اور دیندار حضرات بھی ہوتے ہیں ، برسر عام ہانکے پکارے یہ گناہ ہوتا ہے، اور لوگوں کی پیشانی تک شکن آلود نہیں ہوتی۔
حالانکہ ان تصویروں کے بنانے کی نہ کوئی ضرورت ہوتی ، نہ کوئی مجبوری ہوتی ، میں دنیا والوں کی دنیادارانہ باتوں سے غرض نہیں رکھتا ، دینداروں کا مجمع ہے ، دینی وعظ ہورہاہے ، مدرسوں کے جلسے ہورہے ہیں ، کسی دینی موضوع پر کانفرنس ہورہی ہے، یا سیمینار ہورہا ہے، علماء ومتدین حضرات تشریف فرما ہیں ، اﷲ ورسول کے ارشادات نقل کئے جارہے ہیں ، تاکید کی جارہی ہے کہ دنیا وآخرت کی فلاح اﷲ اوررسول کی اطاعت میں ہے ، گناہوں سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں ، گناہوں سے مصائب کی آگ برستی ہے ، یہ سب مضامین بیان ہوتے ہیں ،عین اسی بیان کے وقت کیمرے کی آنکھ چمکتی ہے، اور تصویریں بنائی جانے لگتی ہیں ، گناہ کی مذمت اور عین اسی وقت دھڑلے سے گناہ کاارتکاب ! کیا غیرتِ الٰہی کو حرکت نہ ہوگی؟
اچھا یہ تصویریں لی گئیں تو اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیاان تصویروں سے دین کا کوئی فائدہ ہوا، اگر اخبار میں تصویر چھاپ دی گئی ، یاٹی۔وی کے اسکرین پر یہ تصویریں آگئیں اور بہت سے لوگوں نے دیکھ لیا ، تو کیا ایمان تازہ ہوگیا؟ کیا کوئی ثواب مل گیا ؟ کیا علم وعمل کا داعیہ پیدا ہوگیا؟ کچھ بھی نہیں ، تو کیا دنیا کا کوئی فائدہ ہوگیا، ایک شہرت کی صورت بن گئی، تو اس سے دنیا کاکیا نفع حاصل ہوگیا؟ اگر کہئے کہ شہرت ہی دنیا کا نفع ہے ، تو یہ سخت غلطی ہے ، بہرحال یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دینی ودُنیوی کسی اعتبار سے فائدے کے خانے میں نہیں رکھا جاسکتا، ہاں لذت نفس ہے ، ذہن ودماغ کی عیاشی ہے۔
فائدے کے اعتبار سے تو اس کا یہ حال ہے ، اب ذرا اﷲ ورسول کے نزدیک اور شریعت کی نگاہ میں بھی اس کی حیثیت دیکھ لینی چاہئے۔
آپ قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب بخاری شریف کھول لیجئے، کتاب اللباس نکالئے ، اس میں ایک باب ہے، عذاب المصوّرین یوم القیامۃ،ا س میں