طویل داستانِ درد ہے کہ قلم کا جگر اس کے تذکرے سے شق ہوتا ہے۔ انتظام کی اور حکومت کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے ان کی کمینگی اور پستی کا یہ عالم ہے کہ سوائے دولت بٹورنے اور اپنے خویش واقارب اور اپنی قوم کی جائزوناجائز ترقی وعروج کے ان کا اور کوئی مقصد ہی نہیں معلوم ہوتا ۔ اور علم دین کی نسبت سے جولوگ منسوب ہیں ، وہ بھی دنیا ودولت اور شہرت ونمود ، نیز خود غرضی وریاکاری کی دوڑ میں کسی دنیادار سے پیچھے نہیں رہ جاناچاہتے الا ماشاء اﷲ۔ پس اﷲ ہی سے مدد کی طلبگاری ہے۔
یہ باتیں تلخ ضرور معلوم ہوں گی ، مگر ان تقریبات کا ضرر کھلی آنکھوں دکھائی دے رہا ہے، اس لئے عرض کردیا۔ ؎
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
( مئی ۲۰۰۷ء)
٭٭٭٭٭