آگے بڑھ کر بے حیائی اور فحاشی میں جاپڑیں ، اور حکومت کی باگ ڈور ایسے معمولی اور ناکارہ لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ، جو منصب حکومت کی عصمت وآبرو کو مجروح کردیں ، اور دینی علوم ایسے کم ظرفوں کے حصے میں آجائے ، جونہ دین کی قدر جانیں اور نہ علم کی ، ان کے لئے دین اور علم ایک دنیوی کاروبار بن کر رہ جائے ۔ جب یہ صورت حال ہو، تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے میں آدمی معذور ہے۔
صاحب فتح الباری نے ایک اور حدیث نقل کی ہے ، اور یہ روایت امیر المومنین حضرت عمر فاروق ص سے ہے، کہ دین کی خرابی اس وقت ہوگی جب علم چھوٹوں کی جانب سے آئے ، تو بڑے لوگ اسے تسلیم کرنے سے انکار کریں گے، اور لوگوں کی بھلائی اس وقت ہے جب علم بڑوں کی طرف سے آئے ، اور چھوٹے اس کی پیروی کریں ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ مشہور امام لغت ابوعبید نے فرمایا کہ چھوٹے ہونے سے مراد مرتبے کا چھوٹا ہوناہے ، عمر کا نہیں ، مطلب ہے کہ علم اور دین کی عظمت وبلندی سے جن لوگوں کی طبیعتوں کی پستی میل نہیں کھاتی ، اور وہ خود علم کی وجہ سے بلند ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، علم ہی کو نیچے اتاردیتے ہیں ۔ یہ چھوٹی طبیعت اور مرتبہ کے لوگ جب علم کی باتیں کریں گے ، اور اسے نیچے اتار کر کریں گے ، تو بڑے لوگ اسے قبول نہ کریں گے ، اور اس میں کشمکش کی صورت پیدا ہوگی۔
آج حقیقت یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ سے درآمد کئے ہوئے سیمیناروں سے بنی اسرائیل کی یہ خرابی خوب پھل پھول رہی ہے ، اچھے لوگ مداہنت کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ، ان سیمیناروں میں جو موضوعات چھیڑے جاتے ہیں ، اور جس جس طرح اظہارِ خیال ہوتا ہے وہ تو بجائے خود ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اس کے علاوہ بے تحاشا اسراف ، تصویر سازی ، ویڈیو گرافی، نام ونمود کی شورشیں اور اﷲ جانے کتنے کتنے منکرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں ، لیکن یہ اچھے حضرات منکرات کی ان تجارت گاہوں سے نہ احتراز کرتے ، اور نہ وہاں رہ کر مؤثر طریقے پر ٹوکتے ۔ اور بروں کی بے حیائی کا اس دور میں جو عالم ہوگیا ہے، وہ تو ایک