ان کی علمی استعداد پختہ کریں ، اساتذہ ان پر محنت کریں ، ان کی صحیح تربیت کریں ، زہد وقناعت ، توکل وعزیمت ، حق تعالیٰ کی رضاجوئی کا جذبہ پیدا کریں ، دنیوی مال ومتاع کو موضوعِ زندگی بنانے سے انھیں دور رکھیں ۔ شہرت وریاکاری اور نام ونمود کی ہوس سے ان کے قلوب کو پاک رکھنے کی کوشش کریں ۔ اس کے لئے بڑی یکسوئی کی ضرورت ہے، اور اگر یہ طلبہ اور یہ اساتذہ انھیں وقتی اور ہنگامی تقریبات میں مبتلا رہیں گے ، آج فلاں مدرسے میں سیمینار ہے ، کل فلاں مدرسے میں جلسہ ہے ، پرسوں فلاں مدرسے میں کانفرنس ہے، اور ہر جگہ آنے کی ، کھانے کی دعوت ہے ، بہترین انتظامات ہیں ، تو ان مدرسوں اور ان طلبہ واساتذہ کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
یہود ونصاریٰ کی تقلید کس حد تک مذموم ہے ؟ اور اس کی قباحت کس درجہ ہے؟ اس کااندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے ، جس کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ‘‘ میں حدیثلتتبعن سنن من کان قبلکم، کی شرح کے ذیل میں نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت انس ص سے منقول ہے کہ رسول اﷲ ا سے دریافت کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب ترک کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : إذا ظھر فیکم ماظھر فی بنی اسرائیل إذا ظھر الادھان فی خیارکم والفحش فی شرارکم والملک فی صغارکم والفقہ فی رذالکم ، جب تم میں وہ حالات ظاہر ہوجائیں ، جو بنی اسرائیل میں ظاہر ہوئے تھے ، جب اچھے لوگوں میں مداہنت ظاہر ہو، اور برے لوگوں میں بے حیائی ، اور چھوٹوں میں حکومت اور کم ظرفوں میں فقہ ظاہر ہو۔( تب امر بالمعروف چھوڑا جاسکتا ہے ، اور نہی عن المنکر بھی )
اس حدیث میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل میں جن خاص برائیوں کا ظہور عام ہوگیا تھا ، وہ یہ ہیں ، کہ اچھے اور نیک لوگ مداہنت برتنے لگیں ۔ یعنی بری چیزوں کو دیکھیں تو نہ صرف چشم پوشی کریں ، بلکہ باتوں کی صنعت اور بناوٹ سے اور برتاؤ کے طرز سے گویا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا رُجحان ہوجائے ، اور جو برے ہیں وہ عام برائیوں سے