حال یہ ہے ؎ہر کہ آمد عمارت نو ساخت
سیمینارخاص خاص موضوعات پر ہوتے ہیں ، یہ عوامی چیز نہیں ہے ، لیکن اربابِ مدارس نے اسے ایک عوامی مجمع بنادیا ہے ، بڑے بڑے اشتہارات چھپنے لگے ہیں ، ممبرانِ استقبالیہ ، ارکانِ استقبالیہ اور نہ جانے کن کن عنوانات سے درجنوں نام چھاپے جاتے ہیں ، سڑکوں پر بڑے بڑے مصنوعی گیٹ بنائے گئے ، لمبے لمبے اخراجات کی تفصیل شائع کی گئی ، پنڈال کو سجانے کا مسرفانہ اہتمام کیا گیا ۔ کیا شریعت میں اس اسرافِ بے جا کی گنجائش ہے ؟ اسلام میں جو سادگی ہے ، وہ کہاں گئی ؟ پھر مزید یہ کہ ان پروگراموں کی بسا اوقات تصویر سازی ہوتی ہے جو حکم شریعت کے قطعاً منافی ہے۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
یہود ونصاریٰ کی نقالی نے عام مسلمانوں کو تو جہاں پہونچایا تھا ، پہونچایا ، علماء اس پر روک لگاتے ، اس کی قباحت وشناعت بیان کرتے ، اﷲ ورسول کی تعلیمات کو عملاً اور علماً پھیلاتے ، مگر یہ کیا ہوا کہ روک لگاسکنے والے خود نقالی کی رَو میں بہنے لگ گئے ، سیمیناروں کی کثرت کو دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا کہ شاید مدرسوں کا قبلہ ہی بدل جائے گا ، دیکھ دیکھ کرہر ایک کو شوق چِرّانے لگتا ہے۔
اور یہ تو مشاہدہ ہے کہ ان تقریبات کی تیاریوں میں تعلیم کا سخت نقصان ہوتا ہے ، لیکن جیسے یہ طے ہوچکا ہے کہ تعلیم کا خواہ کتنا ہی کباڑا ہو ، یہ نقالیاں ضرور جاری رہیں گی ۔ مختلف عنوانوں سے دینی مدارس کی تعلیم ، ان کی افادیت مجروح کرنے کا جیسے کوئی منظم منصوبہ چل رہا ہو، مختلف قسم کے مسابقات ، الگ الگ ناموں سے جلسے اور اجتماعات، مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کو متعدد حسین وجمیل ناموں اور پروگراموں کے ذریعے ایسی ترغیبات کہ علمی استعداد کو تو کوئی خاص نفع نہ ہو ، لیکن زندگی کا معیار بلند کرنے کی ہوس بڑھ جائے ، پھر وہ تنگی ترشی برداشت کرکے دینی خدمت انجام دینے کے اہل نہ رہ جائیں ۔
مدارس کے کرنے کا کام یہ ہے کہ جو طلبہ انھیں اﷲ کی طرف سے مل جارہے ہیں ،