استفادے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔
اب لوگوں نے رنگ بدلے ۔ پرانی باتیں قدامت کے الزام میں قابل ترک ہوگئیں ، اب جو تحفے یورپ سے آئے ، ان میں کانفرنسیں ، سیمینار ، سمپوزیم، توسیعی خطبات ، لکچرز ، استاذ زائر (وزیٹنگ پروفیسر) اور اﷲ جانے کیا کیا طریقے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے بعض بزرگوں نے فقہی موضوعات پر سیمینار شروع کئے ، تو یہ لفظ نامانوس ہونے کے باوجود قدرے مانوس ہوا ، لیکن بار بار کے سمیناروں سے تجربہ ہوا کہ یہ فقہی اور دینی مزاج کے خلاف ہے ، کسی فقہی موضوع پر سوالات وضع کئے جاتے ہیں ، اور کچے پکے لوگوں سے ان کے جواب طلب کئے جاتے ہیں ، لوگ اپنے اپنے خیالات کا مجموعہ تیار کرکے جواب کے نام پر بھیج دیتے ہیں ، پھر وہ لوگ سیمینار کی تہذیب ولوازم کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں ، بیٹھتے ہیں ، جہاں اور جس طریقے سے بیٹھتے ہیں ، وہ مجلس علماء سے زیادہ اسمبلی یا پارلیمنٹ کا ہاؤس معلوم ہوتا ہے، کچھ ،مباحثے ہوتے ہیں ، کچھ مناقشے ہوتے ہیں ، پھر کمیٹیاں بنتی ہیں ، پھر تجویزیں لکھی جاتی ہیں ، کچھ پر اتفاق رائے ہوتا ہے ، زیادہ تر اختلافی تجویزیں ہوتی ہیں ، ان کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ علمی مسائل ومعاملات جو علماء کے درمیان رہ کر متوازن ہوتے ہیں ، عوام انھیں اپنے نزدیک قابل اعتماد علماء سے فتویٰ لے کر حاصل کرتے ہیں ، اور ان پر عمل در آمد کرتے ہیں ، اب یہ مختلف المزاج علماء کے مباحث وخیالات ، اہل علم کے حلقہ سے عوام الناس اور اخبارات کے عوامی اور طوفانی ماحول میں آجاتے ہیں ، اور رنگ کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے، خاص اہل علم کے مسائل ومباحث عوام کے درمیان اور اخبارا ت کے صفحات پر آکر کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ سیمیناروں کو خواہ جتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے، لیکن ہے یہ لتتبعن سنن من کان قبلکم کا مظہر!
اس طریقے کے جلسے اور مجمعے اب سے پہلے مدارس دینیہ اور علماء کے حلقوں میں متعارف نہ تھے ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رہے ہوں تو رہے ہوں ، مگر اب وباء کی طرح سیمیناروں کا سیلاب علماء کے دائروں اور مدارس کے حصار میں گھسا جارہا ہے ، اور ا س پر