سلف میں باوجود ضرورت اور امکان کے اسے اختیار نہیں کیا گیا ، یا اسلامی مزاج سے اسے مناسبت نہیں ، یا وہ نیا طریقہ یہودو نصاریٰ اور غیر مسلموں سے درآمد کیا گیا ہے ، تووہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔
حضرت عبادہ بن صامت ص ، امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان ص کو ایک موقع پر رسول اﷲ ا کا ارشاد سنارہے تھے کہ میں نے اﷲ کے رسول ابوالقاسم حضرت محمد ا سے سنا ہے، آپ فرمارہے تھے کہ میرے بعد کچھ لوگ تمہارے معاملات کے ذمہ دار ایسے ہوں گے ، جو تم کو وہ چیزیں بتائیں گے جو تم نہیں جانتے ، اور جن باتوں کو تم جانتے ہو، انھیں وہ نہ جانیں گے اور انکار کریں گے ، تو جو کوئی اﷲ کی نافرمانی کرے ، اس کی اطاعت نہیں ہے ، اس لئے اپنے رب کے کے ساتھ حیلہ سازی مت کرو۔( مسند احمد ،ج:۵، ص:۳۲۵)
مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں منکر ہیں ، انھیں اگر کوئی صاحب اختیار شخص بھی مسلط کرنا چاہے تو کوئی حیلہ بہانہ کرکے اسے قبول کرلینادرست نہیں ہے ، ایسے منکر اور غلط امور میں کسی بھی مخلوق کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
ایک طرف ہم اپنے ہادی ورہبر ، اﷲ کے آخری پیغمبر ا کے یہ ارشادات پڑھتے ہیں ، اور اس کی روشنی میں اسلاف کرام کے تعامل کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی نئی چیز اور نئے طریقۂ کار کا احتساب کرکے شریعت کے دائرے میں رد وقبول کرتے تھے ، پھر اپنے زمانے میں عوام کو نہیں خواص کو ، عامیوں کو نہیں عالموں کو ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو نہیں دینی مدارس کو دیکھتے ہیں کہ اپنے حلقوں میں یعنی دینی حلقوں میں وہ طریقۂ کار بے تکلف اختیار کرتے ہیں جویورپ سے یہود ونصاریٰ کی تقلید وپیروی میں در آمد کیا ہوا ہے ، ہماری معروف چیز درس وتدریس کے حلقے ہیں اساتذہ وطلبہ کی باوقار مجلسیں ہیں ، وعظ وارشاد کے مجامع ہیں ، بزرگوں کی صحبتیں ہیں ، مشائخ کی خانقاہیں ہیں ، ذکر کے حلقے ہیں ، علمی مجالس ہیں ، افادہ اور استفادہ کے لئے درسگاہیں ہیں ۔ طالب علم اپنے استاذ کی خدمت میں اور مرید اپنے شیخ کی صحبت میں عرصۂ دراز تک کسب فیض کرتاہے ، علمی اور دینی مزاج بناتاہے ، پھر اس سے