انداز جو یہود ونصاریٰ کے یہاں رائج ہے، جس میں کسی کا کسی سے پردہ نہ ہو، خاندانی نظام اسی طرز کا جو یورپ کے عیسائیوں اور امریکہ کے یہودیوں سے در آمد کیا گیا ہے ، ذرائع آمدنی اور کسب معاش کے وہی طریقے جن پر سود خوار قومیں کاربند ہیں ، غرض اسلام کا نام لیا تو جاتا ہے ، مگر اس لئے کہ اسے یہود ونصاریٰ کی تہذیب کے حق میں گواہ بناکر لایا جائے ۔ جن لوگوں نے انگریزی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی ہے ، اور وہاں کے تربیت یافتہ ہیں ان کی غالب اکثریت تو اسی مذکورہ بالا رنگ میں ہے ، بعض لوگ بڑھاپے میں کسی بزرگ اور اﷲ والے کی صحبت میں کچھ اندر اپنے دینی رنگ کی تبدیلی کربھی لیتے ہیں ، توزیادہ تر اپنی ذات تک محدود رہ کر! یہ دینی رنگ ان کی اولاد اور خاندان تک نہیں آنے پاتا ۔
خیر یہ حضرات تو انگریزی تہذیب کے گھروندوں میں پلے بڑھے ہیں ، ان سے اس کے علاوہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے، شکایت تو ان حضرات سے ہے جنھوں نے خالص دینی اداروں میں تعلیم پائی ہے، تربیت حاصل کی ہے ، جنھیں اس دورِآخر میں اجنبی بن کر رہنا چاہئے تھا ، یہ حضرات بھی انگریزی تہذیب کی نقالی میں انھیں کے طریقے اپنائے جارہے ہیں اور خوش ہیں کہ ہم کام کررہے ہیں ، کارنامے انجام دے رہے ہیں ، حالانکہ معاملہ برعکس ہے ، کیونکہ یہود ونصاریٰ کا طریقہ اختیار کرنا خواہ وبظاہر کتنا ہی خوبصورت نظر آئے محمود نہیں ہے ، ہمارے یہاں وہی چیزیں لائق تقلید ہیں جن سے ہم پہلے سے دین کے اندر واقف ہیں ، چاہے وہ دوسروں کے نزدیک اجنبی ہوں ، اور جو طریقے دین کے اندر نئے اختیار کئے جاتے ہیں وہ یہود ونصاریٰ کے یہاں چاہے جتنے معروف ہوں ، ہم انھیں منکر سمجھیں گے۔
کوئی نیا طریقہ ہو، خواہ دین میں یا دنیا میں ، اسے شریعت کی معروف تعلیمات پر پرکھا جائے گا ، اگر شرعی اصولوں سے کوئی دنیاوی معاملہ ٹکرائے گا ، تو اسے یا تو ترک کرنا ضروری ہوگا ، یا اس کی اصلاح کی جائے گی ، اور اگر دینی معاملہ ہوگا تو صرف اس کے مصالح اور فوائد پر نظر نہیں کی جائے گی، بلکہ دیکھاجائے گا کہ سلف میں یہ طریقہ تھا یا نہیں ؟ اسلامی مزاج سے اسے مناسبت ہے یا نہیں ؟ پھر یہ کہ وہ نیا طریقہ کہاں سے درآمد کیا گیا ہے؟ اگر