لوگ اس اجنبیت کو دور کرنے کے لئے دنیاوی علوم کو دنیاوی علوم ہی کی حیثیت میں لانا چاہتے ہیں ، تاکہ دین کے حاملین دنیا میں اجنبی نہ رہیں ، اور بعض لوگ تو اس سے بڑھ کر یہ ستم کرتے ہیں کہ تحریف کرکے دنیاوی علوم کو دینی علم قرار دیتے ہیں ، اور دینی علم کی حیثیت سے دنیاوی علوم کو نصابِ تعلیم میں داخل کرکے دین ہی کی اجنبیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
حالانکہ حدیث کے مطابق دورِآخر میں دین اور دینداروں کو اجنبی ہونا اور رہنا ہی مبارک ہے ، چنانچہ مسلم شریف کتاب الایمان میں باب بیان أن الاسلام بدأ غریباً وسیعود غریباً کے تحت سیّدنا حضرت ابوہریرہ ص کے حوالے سے رسول اﷲ ا کا ارشاد درج کیا گیا ہے کہ بدأ الاسلام غریباً وسیعود غریباً کما بدأ غریباً فطوبیٰ للغرباء۔ اسلام اپنی ابتداء میں اجنبی تھا ، اور جیسا ابتدامیں تھا بعد میں بھی اجنبی بن جائے گا،پس ان اجنبیوں کے لئے بشارت ہے۔
امام نووی شارح مسلم علیہ الرحمہ نے قاضی عیاض کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلام کا جب آغاز ہوا تھا ، تو محض چند افراد اس کے ماننے والے تھے ( جو زمانے کے رنگ ڈھنگ سے الگ تھے ) پھر اس کے عروج وترقی کا دور آیا ، اور عام طور پر لوگ اسلام کے حلقے میں داخل ہوگئے اور دین اسلام کا غلبہ ہوگیا ( اب اس کی اجنبیت جاتی رہی ) پھر آہستہ آہستہ اس میں گھٹاؤ آتا رہے گا ، یہاں تک کہ دین اپنی پوری شکل وصورت میں کچھ ہی لوگوں میں رہ جائے گا ، جیساکہ پہلے تھا ۔ یہ ’’ الغرباء‘‘ کون ہیں ؟ خود رسول کریم ا کی زبانِ مبارک سے اس کا مصداق سنئے! یہ روایت مسند احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص سے منقول ہے ، اس میں ہے کہ رسول اﷲ ا سے دریافت کیا گیا کہ یہ غرباء کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا النزاع من القبائل ، یعنی قبیلے کے وہ افراد جو قبیلے اور خاندان سے الگ ہوکر دور ہوگئے ہوں یعنی انھیں اپنے خاندان اور قبیلے کے طور طریقے سے مناسبت نہیں رہی ، اس لئے ان سے الگ تھلگ اجنبی بن جاتے ہیں ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اجنبی بن کر خاندان سے دور ہوجاتے ہوں ۔