کے دربار سے آئے، اسی کو پڑھ کر آدمی تعلیم یافتہ ہوتا ہے ، دانشور ہوتا ہے، روشن خیال ہوتا ہے، محض قرآن وحدیث پڑھا تو کچھ نہیں جب تک وہ علم نہ پڑھے جس پر یہود ونصاریٰ یعنی انگریزوں کی مہر توثیق لگی ہو ، اگر ہمارے مدارس میں صرف قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم ہوتی ہے ، تو یہ ان مدارس کا نقص ہے، ان میں انگریزوں کی ہنرمندیاں ضرور شامل نصاب ہونی چاہئیں ، ورنہ نصاب بیکار ہے، یہ مدارس آثارِ قدیمہ ہیں ، ایسی مرعوبیت ومغلوبیت کہ روشنی صرف وہی ہے جو یورپ سے آئے ، تنہا اسلام کی روشنی گھپ اندھیاری ہے ، یہ بات عوام کہیں تو کہیں ، انھیں تو کچھ معلوم نہیں ، یہ بات اب وہ لوگ کہتے ہیں ، جو اپنے کو علماء کی صف میں شامل کرتے ہیں ، اپنے کو دین کا ترجمان سمجھتے ہیں ، خود کو اسلام کا مفکر قراردیتے ہیں ، وہ بھی یہود ونصاریٰ ہی کے دامن میں پناہ لینا چاہتے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں نے دنیا کو دین کے لئے برتا تھا ، جدید نسل کے بزرگ دین کو دنیا کے لئے برتنا چاہتے ہیں ، اور یہ یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ ہے ، یہ لوگ دین کا نام ضرورلیتے ہیں ، بلکہ دنیا پر دین کا رنگ وروغن چڑھا کر دنیا کو فریب دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پرانے طرز کے مدارس کی وجہ سے اب بھی جو بہت سے پختہ دینداروں پر دین کا اثر راسخ ہے ، اسے چھڑا کر دنیا کا رنگ چڑھا دیا جائے۔ آج نصاب بدلنے کی اسکیمیں ہیں ، اس میں کامیابی مل جائے گی تو تہذیب وتمدن میں خود بخود تبدیلی آجائے گی ، آج مولویوں میں جو مسلمانوں کی شکل وصورت پائی جارہی ہے ، کل کو صورت نہیں پہچانی جائے گی ، نہ داڑھی سے ، نہ لباس سے ، نہ وضع قطع سے، یہ چیزیں رخصت ہوجائیں گی ، تو پھر نمازوں کو کون پوچھے گا ، قرآن سے کیا مطلب ہوگا ، حدیث کے مطالعہ کی دردسری کون مول لے گا ۔
اور یہ آثار ان حلقوں میں نمایاں ہوچکے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں جن حلقوں نے دینی تعلیم کے دائرے میں دنیاوی تعلیم کو داخل کررکھا ہے ، آنکھیں کھلی ہوں تو سب کچھ نظر آرہا ہے۔
اب محض دین کی تعلیم جو خالص دینی علوم پر مشتمل ہو ، اجنبی معلوم ہوتی ہے ، کچھ