بہت سے افراد اگلے لوگوں یعنی یہود ونصاریٰ اور آتش پرستوں کی تقلید وپیروی کے بہت زیادہ حریص ہوں گے ، اور یہ تقلید واتباع گناہوں اور شریعت کی خلاف ورزی کے باب میں ہوگی ، کفر کے متعلق نہیں ۔
حدیث کے یہ الفاظ بظاہر خبر ہیں ،لیکن مقصود اس سے اتباع اور تقلید سے ممانعت ہے ، درحقیقت اس امت کو حکم دیا گیا ہے وہ یہود ونصاریٰ کی تقلید نہ کریں ، نہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور طریقے کی طرف التفات کریں ، کیونکہ نورِ اسلام کے سامنے تمام انوار ماند پڑچکے ہیں ، اور شریعت اسلامی نے دوسری شریعتوں کو منسوخ کردیا ہے۔
رسول اﷲ ا کی یہ پیشین گوئی درحقیقت آپ کا معجزہ ہے ، چنانچہ یہی ہواکہ آپ کی امت میں بہتیرے لوگوں نے مجوسیوں کا نقش قدم اختیار کیا ، ان کی جیسی شکلیں بنائیں ، ان کے لباس اختیار کئے، ان کی جیسی سواریاں پسند کیں ، جنگوں وغیرہ میں ان کے مخصوص طریقے اختیار کئے ، اور بہتوں نے یہود ونصاریٰ کی تقلید میں مسجدوں کو خوب مزین کیا ، قبروں کی تعظیم میں اتنا غلو کیاکہ عوام تو قبروں کے پجاری ہی بن گئے، سنیچر کے دن مریض کی عیادت نہیں کرتے ، نوچندی جمعرات کو خوشیاں مناتے ہیں ، وغیرہ۔
حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ : ابن بطال نے فرمایا کہ آپ کی امت نئی نئی باتوں اور بدعتوں اور اپنی ذاتی خواہشات ونظریات پر چل پڑے گی، جیسا کہ اگلی امتیں بھی اس حادثہ سے دوچار ہوئی تھیں ، اور بہت سی احادیث میں متنبہ کیا گیا ہے کہ دورِ آخر شر ہوگا ، اور قیامت اشرار ہی پر قائم ہوگی ، اور دین تو بس خاص خاص لوگوں میں باقی رہ جائے گا ‘‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ جن باتوں پر رسول اﷲ ا نے تنبیہ فرمائی تھی وہ اکثر ظاہر ہوچکی ہیں ، اور بقیہ بھی ظاہر ہوکر رہیں گی۔
یہ بات حافظ ابن حجر آج سے ساڑھے پانچ سو برس پہلے کہہ رہے ہیں ، آج ہوتے اور ہم مسلمانوں کے احوال دیکھتے تو معلوم نہیں کیا کہتے ، اب تو دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون کتنا بڑھ کر یہود ونصاریٰ کا طریقہ اختیار کرتا ہے اور حال یہ ہے کہ علم بھی وہی ہے جو یہود ونصاریٰ