بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
کسی بزرگ کا قول ہے ، عرفت ربی بفسخ العزائم، عزیمتیں ٹوٹتی رہیں ، ارادے شکست وریخت ہوتے رہے ، اس سے میں نے اپنے مالک وپروردگار کو پہچانا۔ انسان خواہ کتنا ہی عزم محکم کرے ، کتنے ہی پختہ اسباب جمع کرلے ، لیکن اگر رب العالمین کو منظور نہیں تو سارا عزم منہدم، سارے اسباب چکناچور!
ناظرین کرام! انسان ضعیف البنیان نے بہت چاہا ، تدبیریں کیں کہ رسالہ ضیاء الاسلام کی گاڑی لائن پر آجائے ، مگر اس کے لائن پر آنے کی شرط تھی کہ اہل تعاون کے ہاتھ بڑھیں ، اور قرض کا جو بوجھ اس پر لد گیا ہے ، اسے اتاریں ، لیکن وہ نہیں ہوسکا ، اس لئے چل چل کریہ گاڑی رکتی رہی ، الحمد ﷲ کہ اس کے قدرداں بہت ہیں ، انھوں نے مفید مشورے دئے ، مگر ہم اپنی کوتاہ دامانی کی وجہ سے ان مفید مشوروں پر عمل نہ کرسکے۔ مشورہ یہ تھا کہ خریداروں کی خدمت میں آدمی بھیجاجائے ، اور وہ فرداًفرداً سب سے بقایا کہ رقم وصول کرے، اس میں قدرے پیش رفت ہوئی ، اور اس کے نتائج بھی بحمد اﷲ اچھے نکلے مگر پورے طور پر عمل نہ ہوسکا ۔ بہر حال جو کچھ عمل ہوسکا اس کے نتیجے میں تین چار ماہ کے رسالے ہم قارئین کے ہاتھوں تک پہونچاسکے ، مگر قرض جوں کا توں رہا۔ اب ادارے نے ایک انہونا فیصلہ کیا ہے ، اور زبانی اس کی اطلاع اس خاکسار نے اپنے دوستوں کو کربھی دی ہے ، اور انھوں نے خوشی سے اسے منظور بھی کرلیا ہے ، وہ یہ کہ ۲۰۰۶ء کے تین پرچے شائع ہوئے ہیں ، اور ماہانہ رسالہ کی ترتیب بگڑی اور بگڑتی چلی گئی ہے ۔ اب دسمبر تک کوئی پرچہ شائع نہیں ہوسکا ہے، تو ۲۰۰۶ء کو اتنے ہی رسالوں پر موقوف کردیاجائے ، اور جن حضرات نے ۲۰۰۶ء کی پوری رقم عنایت فرمادی ہے … اور ایسے لوگ شاید سو [۱۰۰]سے زیادہ نہیں ہیں … ان کی خدمت میں معذرت کرلی جائے کہ تین پرچوں سے زائد رقم کو رسالہ کیلئے ’’تعاون محض‘‘بناکر ادارے کو اس سے بری کردیں ، اور ۲۰۰۷ء کاسالانہ بدل اشتراک عنایت فرماویں ۔ میرا سفر بہار دربھنگہ ومدھوبنی کا ہوا تھا ، وہاں کے احباب سے میں نے اس کا ذکر کیا