، تو سب نے نہ صرف بشاشت سے اسے قبول کیا ، بلکہ جن دوستوں نے اب تک ۲۰۰۶ء کی رقم نہیں دی تھی ، انھوں نے وہ بھی دی ، اور۲۰۰۷ء کی رقم بھی عنایت فرمائی ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کو تین پرچوں کی ناتمام جلد پر مکمل کردیا گیا ہے ، اور زیر نظر شمارہ سے ۲۰۰۷ء کی جلد شروع ہورہی ہے۔ کوئی دعویٰ نہیں ہے ، لیکن کوشش ہے کہ اب سے شمارے بالترتیب پابندیٔ وقت سے شائع ہوں ۔
تاہم دو باتیں ملحوظِ خاطر رہیں ۔
(۱) ترتیب اور پابندی کے باقی رکھنے کے لئے ہمیں اپنے دوستوں کے تعاون کی شدید ضرورت ہے ۔ اس کے لئے کرنا یہ ہے کہ ۲۰۰۷ء کا چندہ پورے اہتمام سے ادا کریں ، اور اس کا حلقہ بڑھانے کی جدوجہد کریں ، اس مقصد سے ادارے کی طرف سے ایک صاحب ان شاء اﷲ بھیجے جائیں گے ۔ ان کا ہمارے احباب ساتھ دیں ۔
(۲) دوسرے یہ کہ رسالے پر قرض اور خسارے کا جو بوجھ تھا، وہ قدرے تخفیف کے ساتھ اب بھی باقی ہے ، جن کے ذمے پچھلا بقایا ہے ،وہ خوش دلی سے ادا کردیں ، اس کے ساتھ احباب وسعت کچھ اور بڑھ کر بہ نیت ادائِ قرض مزید حصہ لے لیں تو یکلخت یہ بوجھ اترجائے۔
یہ اتنی لمبی چوڑی عبارت اس لئے لکھنی پڑی کہ دل باربار اس وسوسے میں مبتلا ہوا کہ پرچہ ہی بن دکردیا جائے ، اور اپنے خاص احباب کی مدد سے قرض کی کھڈ پاٹ دی جائے ، یہ کا م ہے تو مشکل! مگر آگے گرانباری تو نہ آئے گی ، مگر جب بھی اس کا تذکرہ کسی سے کیا ، بشدت انکار ہوا۔
پرچہ نکلنا چاہئے ، قرض ادا ہوتا رہے گا ، بالآخر وسوسہ اُڑ گیا ، اورعزم یہی رہا کہ پرچہ نکالا جاتا رہے۔پسفَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِکے ارشادِ خداوندی کے مطابق مذکورہ بالا صورت اختیار کی گئی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قارئین اس صورتحال کو گوارا بھی کریں گے اور مزید تعاون سے نوازیں گے۔ واﷲ ولی التوفیق
( جنوری،فروری ۲۰۰۷ء)