مسلمان چاہیں ، اور ذرا توجہ کریں تو اخلاق درست کئے جاسکتے ہیں ، لیکن پیاسا خود نہ چاہے تو دریا کے کنارے رہ کر بھی پیاس سے مر سکتا ہے ۔
اہل ایمان کا دامن رسول اﷲ اکے ساتھ بندھا ہوا ہے ، یہ امت اگر ان کے طریقے اور ان کی سیرت سے انحراف کرے گی ، تو دنیا میں بھی ذلت سے دوچار ہوگی ، اور آخرت میں بھی اپنی شناخت کھو کر محروم ہوگی ۔
معاشرہ کا ہر فرد ذمہ دار ہے کہ وہ اپنی اوراپنے گھر والوں کی فلاح کی فکر کرے ، اخلاق کا بگاڑ گھر سے شروع ہوتا ہے ، پھر غلط صحبتیں انھیں برباد کرکے رکھ دیتی ہیں ، خاندان اور گھر کے بڑوں کو بچوں کے لئے نیک صحبتوں کا اہتمام کرنا چاہئے ، اچھے لوگوں ، نیک اور بزرگ حضرات کی خدمت میں بچوں کو نوجوانوں کا پہونچائیں ، نیکی اور اخلاق کی اہمیت سے انھیں واقف کرائیں ، اور ان حضرات کی خدمت کے آداب سکھائیں ۔
اگر دولت ، دولت کی منڈیوں میں اور دولت مندوں کے پاس ملتی ہے ، تو اخلاق بھی دینداروں ، متقیوں اور بزرگوں کے پاس ہی ملے گا ، ان سے کٹ کر ، ان سے دور رہ کر ، ان سے بد گمان ہوکر ، ان کی بے ادبی کرکے سوائے خرابی اور فسادِ اخلاق کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اپنی عبادت سے قرب خداوندی کی جن بلندیوں تک پہونچ سکتا ہے ، اخلاق حسنہ کے ذریعے سے بھی ان بلندیوں تک رسائی ہوسکتی ہے ، اور معاشرہ تو بنتا ہی ہے اخلاق حسنہ سے ! رسول اﷲ ا کاا رشاد ہے : اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔ مسلمان تو وہی ہے ، جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ ومامون رہیں ۔اور فرمایا :وَالْمُوْمِنُ مَنْ أمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَہٗ۔ مومن وہ ہے جس کی ایذا رسانیوں سے لوگ مامون رہیں ، اور آپ نے ارشاد فرمایا :لاَیُوْمِنُ أحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لأَِخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔ کوئی شخص اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی بات نہ پسند کرنے لگے ، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔