غور کیجئے ، کون پسند کرے گا کہ اس کو گالی دی جائے ، اسے ستایا جائے ، اس کا مال ہڑپ لیا جائے ، قرض مانگے تو نہ دیا جائے ، یا قرض دے تو اسے واپس نہ کیاجائے، کون پسند کرے گا کہ اس کا پڑوسی اس سے جھگڑا کرے ، اس کا بیٹا اس کی نافرمانی کرے ، اس کا باپ اسے گھر سے نکال دے ؟ کون پسند کرے گا کہ اس کی اولاد کے ساتھ کوئی بد سلوکی کرے ، اس کے گھر والوں کے ساتھ بد تمیزی کرے ؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اسے پسند نہیں کرسکتا ، شروع کی سطروں میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ پولیس والا گالی دینے والوں سے نفرت کااظہار کرتا ہے ، حالانکہ وہ خود گلے گلے تک گالی میں ڈوبا ہوا تھا ،ا س سے معلوم ہوا کہ ان بد اخلاقیوں اور بد اعمالیوں کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا ، تو اے ایمان والو ! ایمان کا لحاظ کرو ، اور اے عقل والو ! عقل کے ناخن لو ! جو بات تمہیں پسند نہیں ہے ، اسے دوسروں کے حق میں بھی پسند نہ کرو ۔
دوسروں کی عیب جوئی سے پہلے اپنے عیبوں کو تلاش کرو ، انھیں دور کرو ، اپنے آپ دور کرنا مشکل ہے ،تو اس کے لئے حکمائے قلوب یعنی بزرگانِ دین اور مشائخ سے رابطہ رکھو ، ان کے سامنے اپنی بیماریاں رکھ کر ان سے علاج کراؤ ، یا انھیں دیکھ دیکھ کر ، ان سے سن سن کر اصلاح اخلاق کا اہتمام کرو ۔ تاکہ دنیا بھی سنورے ، اور آخرت کا دائمی امن وسکون حاصل ہو، اﷲ راضی ہوں ، اﷲ کے بندے بھی راضی ہوں ۔
(اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۵ء)
٭٭٭٭٭