ومعاشرے کے باثر اور ذمہ دار ہیں ، تو خود کوشش کریں ، اور اگر نہ ہوں تو بااثر لوگوں کو متوجہ کریں کہ امت کا یہ حال بہت ہی قابل غور ہے ۔ اخلاق حسنہ کی تعلیم عام کرنی چاہئے ، اور بڑے حضرات اخلاقِ نبوی کو اپنائیں ، تلاش کرکرکے اپنائیں تاکہ یہ سرمایہ چھوٹوں تک منتقل ہو ، خود پابند ہوں ، اپنے ماتحتوں اور زیر سرپرستی نوجوانوں کو اس کا پابند بنائیں ، جناب نبی کریم ا کا ارشاد ہے : کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ ، تم میں سے ہر ایک ذمہ دار نگراں ہے ، اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ۔
میں ان لوگوں کی خدمت میں عرض کررہاہوں ، جن کو اﷲ تعالیٰ نے علم وعمل یا دینی ودنیاوی کسی وجاہت سے نوازا ہے ، وہ خود اسلامی اخلاق واعمال پر عمل پیرا ہوں ، اور اپنے زیر نگرانی افراد کو اس کی تاکید کریں ۔ امت میں اخلاقی کمزوریاں اس طرح سرایت کرگئی ہیں کہ پورا معاشرہ کھوکھلا ہوکر رہ گیا ہے ۔
جھوٹ ، بد عہدی ، گالی گلوج ، ایذا رسانی ، دوسروں کا مال ہڑپ کرلینا ، کسی کی تکلیف کی پروا نہ کرنا ، اپنے مفاد کے لئے پورے معاشرے اور ماحول کو فساد اور بگاڑ کی آگ میں جھونک دینا ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر معمولی معمولی باتوں پر مخالف کو قتل کردینا ، جیل بھیجوادینا ، رشوتیں دے دیکراپنے مخالف کو پولیس یا بد معاشوں سے پٹوا دینا ، کیا اﷲ تعالیٰ کے یہاں سرخ رُو ہونے کے یہی اعمال واحوال ہیں ؟ اور کیا دنیا میں پنپنے کے یہی انداز ہیں ؟ اور کیا یہی اسلامی اخلاق ہیں ؟
خوب سمجھ لینا چاہئے کہ بد اخلاقیوں اور خود غرضیوں کے ساتھ کوئی قوم پنپ نہیں سکتی بلکہ زندہ ہی نہیں رہ سکتی ، سیاسی سازشوں اور ہتھکنڈوں نے طبیعتوں کو اس درجہ برباد کیا ہے کہ اخلاق کا تصور مشکل ہوگیا ہے ۔
لیکن مسلمانوں کے پاس تو ایک عظیم الشان خزانہ ہے ، قرآن ہے ، حدیث ہے ، صحابۂ کرام کی سیرتیں ہیں ، علماء سلف کے احوال وواقعات ہیں ، اخلاق پر بیش قیمت کتابیں ہیں ، اور بحمد اﷲ آج بھی عملی نمونے ہیں ، مدارس ہیں ، خانقاہیں ہیں ، علماء ومشائخ ہیں ، اگر