لوگوں کے اعمال کی وجہ سے خشکی وتری میں فساد پھوٹ پڑا ، اس لئے تاکہ کچھ اعمال کا بدلہ انھیں چکھادے ، شاید وہ باز آجائیں ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے : إِنَّ اﷲَ لَایُغَیِّرُ مَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بَأَنْفُسِھِمْ ۔
اﷲ کسی قوم کی اچھی حالت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک لوگ خود ہی اپنے حالات کو بدل نہ ڈالیں ۔( سورہ رعد)
اس سے معلوم ہوا کہ احوال کے اُلٹ پھیر اور حکومتوں کے عزل ونصب میں انسانوں کے کاموں کا بڑا دخل ہے، مگر کوئی شخص اپنے اوپر اس ذمہ داری کوقبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ زبانی طور پر قبول کرنا نہیں بلکہ اس طرح ذمہ داری قبول کرنا کہ اس کے بعد اپنے احوال واعمال کی اصلاح وترمیم کے لئے آدمی مستعد ہوجائے اور بالآخر سدھار پیدا کرلے، اس کے لئے کوئی آمادہ نہیں ہے۔دیکھا یہی جاتا ہے کہ ایک حکومت آئی ، لوگ اس کی شکایت لے کر بیٹھ جاتے ہیں ، پھردوسری حکومت آئی ، اور اس کے ظلم کا ڈنڈا چلنے لگاتو لوگوں کی زبانوں اور تبصروں کا رُخ ادھر پھر گیا ، اب جہاں دیکھئے اسی کا چرچا ہے ، بالخصوص ہمارے ملک میں تو لوگوں کا یہی مشغلہ بن گیا ہے ، گھنٹوں لوگ حکومتوں ، پارٹیوں ، اور دوسروں کے ظلم وستم اور مکائد ودسائس کا تذکرہ اور ان پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں ، ایسے لوگ جو خود اپنی نجی زندگی میں انھیں برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ، جن کی وہ دوسروں پر تہمت رکھتے ہیں ، لیکن مجال نہیں کہ اک ذرا بھی حرکت اپنی اصلاح کے لئے ہو ، یا معمولی سی تنقیدی نظر اپنے اوپر پڑے ، اس طرح حالات میں اور بھی بگاڑ ہوتاچلا جاتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے ، رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ :
إن اﷲ تعالیٰ یقول : أنا اﷲ لاإلہ إلا أنا مالک الملوک وملک الملوک قلوب الملوک فی یدی وإن العباد إذا أطاعونی حولت قلوب الملوک بالرحمۃ والرافۃ وإن العباد إذا عصونی حولت قلوبھم بالسخطۃ والنقمۃ فساموھم سوء العذاب فلا تشغلوا أنفسکم بالدعاء علی الملوک