اور ان کے مادی وسائل پر للچائی نگاہیں ڈالنا ، دنیا وآخرت کا عظیم ترین خسارہ ہے ، علماء ، انبیاء کے وارث ہیں ، انبیاء کی وراثت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوموں سے برملا فرمادیا ـ:
لا أسالکم علیہ أجراً إن أجری إلا علی اﷲ
میں تم سے اپنے دین اور تبلیغ دین پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، میرا اجر تو اﷲ پر ہے ،
اﷲ کے علاوہ انھوں نے کسی سے کوئی نفع نہیں چاہا ۔ تو کیا وہ محروم ہوگئے ؟ یہی وراثت اگر علماء بھی مضبوطی سے تھام لیں ، تو کیا وہ محروم رہ جائیں ۔ کلا دنیا والوں کے پاس دنیا کے علاوہ کیا ملے گا ۔ پھر دنیا حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس جانا ، اپنے دین وایمان اور غیرت وآبرو کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔ قرآن میں جس عالم کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ مال کی لالچ میں پھنس گیا تھا ، اور عبرت کا تماشا بن گیا ۔ عالم وہی ہے بلکہ مومن وہی ہے ، جو اس بد حالی سے سبق لے ۔
لوگ امراء وحکام کے پاس جاتے ہیں ، شاید کچھ دولت حاصل ہوجاتی ہو ، مگر دین تو برباد ہوکر رہتا ہے ۔ مشہور ہے کہ ایک دنیادار پیر سے اس کا ایک مالدار مرید اپنا خوا ب بیان کررہاتھا کہ آ پ کے ہاتھ سے شہد ٹپک رہا ہے اور میرا ہاتھ پاخانہ میں ملوث ہے ، پیر صاحب نے فرمایا کہ اور کیا ؟ تم نے اپنی اور میری حالت خواب میں دیکھی ، مرید کہتا ہے ابھی خواب پورا نہیں ہوا ہے ، میں دیکھ رہا ہوں کہ میں آپ کا ہاتھ چاٹ رہا ہوں ،اور آپ میرا ہاتھ !
دنیادار امراء واصحاب ثروت کے دربار میں حاضری دینے والوں کی یہی مثال ہے ، کاش کہ اصحاب علم ، علم اور دین کے مرتبہ اور مقام کو پہچانتے ، اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ، تو اﷲ کی رحمتیں ان پر اترتیں ۔
( جنوری،فروری۲۰۰۵ء)
٭٭٭٭٭