اور شاید دنیا بھر کے ممالک سے مسلمان علماء کو اپنے یہاں مدعو کیا ہے ، بعض علماء وہاں پہونچ رہے ہیں ، امریکہ کی کچھ تعلیمی میدان میں سرگرمیاں بھی ہیں جو علماء اور اہل مدارس کے ذہنوں میں اُتاری جارہی ہیں ۔ ان سرگرمیوں کا مرکز حیدرآباد میں ہے ، دہلی میں ہے ، ہمارے قریب جامعۃ الفلاح بلریا گنج میں اس موضوع پر ایک ورکشاپ منعقد ہوا تھا ، معلوم ہوا کہ علماء کی کئی کھیپ ہندوستان سے امریکہ پہونچ چکی ہے ، اور امریکہ کی ضیافت سے متمتع ہوکر کچھ لوگ واپس بھی آچکے ہیں ، کچھ لو گ جانے کی تیاریاں کررہے ہیں ، پھر معلوم ہوا کہ گئے بھی ، اور آئے بھی ۔ پھر صدارتی الیکشن ہوا ، اور سابق صدر دوبارہ صدارت کی کرسی پر براجمان ہوگیا ۔ اب سناٹا ہے ۔
اسی وقت اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہوا ۔ مگر موقع نہ مل سکا ۔ اس تماشے پر بہت حیرت ہوئی ، ابھی کتنے دن کی بات ہے ، کہ یہی امریکہ ایک معمولی بہانہ بناکر افغانستان پر بم برسا رہا تھا ، اسے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ، اس سے پہلے عراق کو نشانہ بنا چکا تھا ، افغانستان کے بعد عراق کو دوبارہ تاکا ، اور اسے تہس نہس کرکے رکھ دیا ، اسرائیل کی پشت پناہی یہ مستقلاً کررہا ہے ، عرب ممالک کو کنگال کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے ، اور وہاں کے معادن اور ذخائر کو ہر قیمت پر اپنے تصرف میں رکھنا چاہتا ہے ، دنیا بھر کے دینی مدارس کو دہشت گردوں کے مراکز اور علماء کو دہشت گرد قرار دے کر پروپیگنڈے کی ساری طاقت اس پر جھونک رہا ہے ، وہی امریکہ جس کے ظلم وبربر یت کا شہرہ چہار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے ، اندھا بھی اس کے ظلم وستم کو دیکھ رہا ہے ، بہرا بھی اس کے مظلوموں کی چیخ وپکار سن رہا ہے ، جس کے ظلم وستم کے لئے کسی دلیل وبرہان کی ضرورت نہیں ہے ، وہ امن کا نعرہ لگا کر بد امنی پھیلاتا ہے ، وہ حفاظت کا نام لے کر ملکوں کو اُجاڑتا ہے ، ابھی کتنے دنوں کی بات ہے کہ ہمارے علماء امریکہ کی مصنوعات کو بائیکاٹ کرنے کی تلقین کررہے تھے ، ان مصنوعات کی فہرست شائع کررہے تھے ، ان کے بجائے ملکی مصنوعات کے استعمال کی ترغیب دے رہے تھے ، پیپسی بند ، کوکاکولا بند ، فلاں سگریٹ بند ، فلاں فلاں سامان ناقابل استعمال !