پھر ان لوگوں کی غیرت وحمیت کو کیا کہا جائے ، جو امریکہ کے دسترخوان پر جاپہونچے اور اس خوانِ یغما سے آسودہ ہوکر لوٹے ، ایں چہ بو العجبی ست، رویہ کی اتنی جلد تبدیلی اور اتنی بڑی تبدیلی حیرت در حیرت ہے ۔
قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا ہے ، جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ آتیناہ آیاتنا ، اس کو ہم نے اپنی آیات سے نوازا تھا ، لیکن اس نے اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کی ، اس نے اﷲ کی آیات کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ، اور ان کے آثار وثمرات اور ان کے برکات وحسنات سے خود کو باہر نکال لیا ، جب وہ آیات کے حصار سے نکل گیا تو ظاہر ہے کہ شیطان کا لقمۂ تر بننے میں اسے دیر نہیں لگے گی ۔ چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا ، حالانکہ اس علم اور ان آیات کا مرتبۂ ومقام وہ تھا کہ ان کی وجہ سے اس کو اﷲ ہی جانتا ہے کتنی رفعت حاصل ہوتی ، مگر وہ ظالم دنیا اور متاعِ دنیا ، اور فانی لذتوں کی تلاش میں کھوگیا ، اور اس کی خواہشات اس کے لئے قبلۂ مقصود بن گئیں ، تو اس کی مثال کتے جیسی ہے ، کہ وہ زبان نکال کر ہانپتا ہے ، ذلیل وخوار ہوتا ہے ، بے سبب بھی مشقت اور تکلیف میں رہتا ہے ۔
اندازہ کیجئے ، وہ کون سی چیز تھی ، جس نے ایک ایسے صاحب علم اورصاحب آیات کو جس کے صاحب علم وآیات ہونے کی شہادت اﷲ تعالیٰ دیتے ہیں ، کتے کے درجے میں اُتار دیا ، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متاعِ دنیوی اور لذاتِ فانیہ کی حرص اور اس کی نفس پروری تھی ، وہ ظالم تو اپنی صفت مذمومہ میں آخری حد تک چلا گیا ، کہ ایمان بھی اس کا بالکلیہ غارت ہوگیا ۔ لیکن جو جس حد تک اس حرص اور نفس پروری میں ملوث ہوگا ۔ اس حد تک اس کے ایمان کا چراغ مدھم ہوگا ۔ اور کیا عجب کہ مدھم ہوتے ہوتے بجھ جائے ۔
بہت ڈرنے کا مقام ہے ، علم دین کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا تھا ، مگر مال ودولت کی حرص نے اس عظیم نعمت کی برکات سے محروم کردیا ۔
علماء واصحاب ِمدارس و خوانق کا اصحاب ثروت کی ثروت اور امراء وحکام کی دولت