غلط ہے ۔ پوری دنیا کے مسلمان دارلعلوم دیوبند کے فتویٰ کا احترام کرتے ہیں اور اس کے ہر فتویٰ پر عمل کرنے میں جذباتی حد تک فخر محسوس کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسائل میں عملی کوتاہی ہوجاتی ہے ‘‘۔
یورپی ممالک سنجیدگی سے کیا غور کریں گے ، ان کی سنجیدگی سے تو کچھ اور مزید فتنے ابلیں گے ۔ وہ غور کریں یا نہ کریں ، ہمیں تو قرآن وسنت سے وابستہ رہنا ہے ۔ ٹی ، وی اور انٹر نیٹ کا کوئی اسلامی پروگرام ، اسلامی مزاج سے میل نہیں کھاتا ، اور اگر کچھ علماء ، کچھ بظاہر دیندار لوگ ان پروگراموں سے دلچسپی لیتے ہیں ، تو وہ اسلام کو نقصان پہونچاتے ہیں ۔ قیامت کے دن اس کے وہ جواب دہ ہوں گے ، اسلام اور اسلامی حدود وتعلیمات کا تحفظ ضروری ہے ، ان حدود کو توڑ کر اسلام کا نام تو باقی رہ سکتا ہے ۔ اسلام باقی نہیں رہے گا ، اور وہی بات ہوگی جس کی خبر حدیث میں دی گئی ہے ۔ لا یبقیٰ من الاسلام الا اسمہ ٗ ولا یبقیٰ من القرآن الا رسمہٗ ۔دین کا صرف نام ہی نام باقی رہے گا ، اور قرآن کا صرف نقش ہی نقش رہ جائے گا ۔
کوئی مانے یا نہ مانے ، سنے یا نہ سنے ، دینی حدود کا تحفظ ضروری ہے ، جو کچھ غلط ہے، ا سے غلط کہنا ضروری ہے ، خواہ اکثریت اسی غلطی پر ٹوٹی پڑرہی ہو ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اُتْلُ مَااُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْْنِہٖ مُلْتَحِداً ( سورہ کہف : ۲۷) تمہارے رب کی جانب سے جس کتاب کو بطور وحی کے نازل کیا گیا ہے ، اس کی تلاوت کرو ، اس کے کلمات کوئی بدل نہیں سکتا ، اور اس کے علاوہ تم کوئی پناہ گاہ نہیں پاؤگے ۔
ہدایت کل بھی قرآن میں تھی ، وحی الٰہی میں تھی اور آج بھی وہیں ہے اس کی تلاوت ، اس میں غور وتدبر کو چھوڑ کر لہویات وخرافات کی مشغولیت بجز گمراہی کے اور کچھ نہیں ہے ۔
( اکتوبر ۲۰۰۴ء)
٭٭٭٭٭