’’ ٹیلی ویژن کے ذریعہ اسلامی پروگرام پیش کرنے کے سلسلے میں اپنی رائے میں نرمی پیدا کرنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح سوچ لینا ہوگا کہ کیا اس طرح کا فتویٰ صادر کرنے سے گھروں میں ٹی ، وی رکھنے کی گنجائش نہیں نکلتی ہے اور جب ہم ہر مسلمان کو اپنے گھروں میں ٹی ، وی رکھنے کی عام اجازت دے دیں گے ، تو کیا ہر گھر میں ٹی ، وی کا استعمال صرف اسلامی پروگراموں کے لئے ہوسکے گا ؟ کیا ٹی ، وی کے ا ستعمال کی اجازت ، تھوڑے منافع کی خاطر بہت سے شرور وفتن کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہوگا ؟ یقینا ہوگا اور ۹۹؍ فی صد گھروں میں ٹی ، وی اسلامی پروگراموں تک محدود نہیں رہ سکے گا ۔ ٹیلی ویژن اطلاعاتی انقلاب ہے ، جس کی طاقت کا ہر کسی کو اعتراف ہے اور اس سے فائدہ نہ اُٹھانابظاہر غیر دانشمندی ہے ، لیکن ان حقائق کے باوجود اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ٹی ، وی کے ذریعہ اس طرح کے پروگرام پیش کئے جانے کے باوجود وہ آلۂ لہو ولعب کی علامت بن چکا ہے اور بیشتر ٹی ، وی چینلز کا اولیں مقصد ناظرین کو ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپی ممالک اس بات پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں کہ ٹی ، وی پرپیش ہونے والے پروگراموں کی وجہ سے جو جنسی بے راہ روی اور پُر تشدد واقعات رُونما ہورہے ہیں ان پر کیسے کنٹرول کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب یورپی ممالک کو ٹی ، وی کلچر کا اتنا تلخ تجربہ ہے ، تو پھر ہمارے معاشرہ کا کیا حال ہوگا ۔ ایسی حالت میں حدیث نبوی واضح طور پر ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ ’’ جس میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں یقین ہو اسے اختیار کرو ‘‘ ۔ (مشکوٰۃ)
بہر کیف اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹی ، وی ایک مؤثر ترین پیغام رسانی کا ذریعہ ہے ، جس کی طاقت مسلم ہے ، لیکن جس طاقتور آلہ کے استعمال سے اپنا تشخص مٹ جانے کا خطرہ ہو ، جس کے نقصانات یقینی ہوں ، جس کے تجربات بہت تلخ ہوں ، اس طرح کے ذریعہ ابلاغ کے استعمال کی بھلا کیسے اجازت دی جاسکتی ہے ۔ یہ کہنا کہ ٹی، وی کے سلسلے میں دارالعلوم نے جو فتویٰ دیا ہے ، اس پر آج کے دور میں عمل کرنا ناممکن ہے ، بالکل