کہ وہ پروپیگنڈے کی جگہوں پر جاکر اپنا دفاع کریں ‘‘ ، اس ایک بات کے علاوہ جو باتیں کہی گئی ہیں ، وہ مغربی تہذیب سے تاثر بلکہ مرعوبیت کے آثار ہیں ۔
اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کی جو بات ہے ، وہ صحیح ہے ، مگر اسلام نے ، قرآن وحدیث نے پروپیگنڈے کا جواب پروپیگنڈا نہیں بتایا ہے ، پروپیگنڈے کی بنیاد سچ کے ساتھ بہت سارے جھوٹ پر ہے ۔ آدمی دل کھول کر جھوٹ بولے اور اتنا بولے کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے ، ظاہر ہے کہ اسلام اس کی اجازت کبھی نہیں دے سکتا ، اور یہ تصور بھی غلط ہے کہ جس ماحول میں پروپیگنڈا ہورہا ہے ، اسی ماحول میں ہم جاکر تردید کریں ۔ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
لَتُبْلَوُنَّ فِیْْ أمْوَالِکُمْ وَأنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْْنَ أشْرَکُوا أذیً کَثِیْراً ،وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (سورہ آل عمران :۱۸۶)
ایمان والوں سے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے جان ومال میں تمہاری آزمائش ضرور ہوگی ، اور تم اگلے اہل کتاب (یعنی یہودیوں ، عیسائیوں ) اور مشرکین سے بہت زیادہ تکلیف دہ باتیں سنو گے ، اور اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ پر جمے رہو گے تویہ بہت پختہ اور عزیمت کی بات ہے ۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے پروپیگنڈے کے جواب کا جو طریقہ بتایا ہے ، وہ صبر اور تقویٰ ہے ،
معترضین اور مشرکین کے ہر اعتراض کا جواب ہی کہاں ضروری ہے ، ان سے تو اعراض ہی مناسب ہے ۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :