وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَاماً (سورہ فرقان :۶۳)
جب جہالت والے ان سے مخاطب ہوتے ہیں ،تو یہ سلامتی کی بات کہہ کے ہٹ جاتے ہیں ۔
وَاِذَا مَرُّوْا بِالَّلغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً (سورہ فرقان :۷۲)
جب لغو باتوں پر ان کا گزر ہوتا ہے ، تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
ٹی ، وی تو گندگی کا خزانہ ہے ۔ اخبارات میں جب کوئی غلط بات اُچھالی جاتی ہے ، اور پھر بعض اہل قلم اس کا تحقیقی جواب دیتے ہیں تو کیا نتیجہ نکلتا ہے ، دیکھنے میں تو یہی آتا ہے کہ سوائے اختلاف اور جہالت کی صورت حال بڑھنے کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وأعرض عن الجاھلین (سورہ اعراف :) جاہلوں سے اعراض کرو ۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کس کس جھوٹ کا جواب دیں گے ۔ اس پروپیگنڈے کا جواب علمی اور سنجیدہ انداز میں جتنا دے سکیں اس سے زیادہ کا اﷲ تعالیٰ نے مکلف نہیں بنایا ہے ، اور نہ ہر ایک بات کا جواب دیا جانا مناسب ہے ۔ آگے صبر اور تقویٰ ہی اصل علاج ہے ، جو قرآن کی نص صریح سے ثابت ہے ، اور جس پر نصرتِ الٰہی کا وعدہ ہے ۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئاً اِنَّ اﷲَ بِمَایَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ (سورہ آل عمران:) اور اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے ، تو ان کی سازشیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ، بے شک یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت میں ہے ۔
اہل اسلام کا معاملہ صرف ظاہری اسباب پر نہیں ہے کہ اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ ساری اہمیت اسی کو حاصل ہوجائے ۔ جواز کے دائرے میں بقدر ضرورت اسباب اختیار کئے جائیں گے اسباب کے دائرے سے بہت بڑا دائرہ نصرت الٰہی کا ہے جس پر یقین ایک مسلمان ہی کو ہوسکتا ہے ۔ کفار دنیادار اس سے محروم ہیں ۔ پھر مسلمانوں کو کفار کے طریقوں پر دوڑانا، ان کے ذرائع ابلاغ کو اختیار کرنے کی تلقین کرنا بالکل غلط اور لغو ہے ۔
مسلمانوں کو تو کفار اور یہود ونصاریٰ کے طریقوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ جن چیزوں کی بنیاد خلاف شرع امور پر ہے ، وہ یہود ونصاریٰ کا طریقہ تو ہوسکتا ہے ۔ اہل