سمجھنا ، تو واقعی جرم بن چکا ہے ، میں یہ باتیں لکھ رہاہوں اور سمجھ رہا ہوں کہ بہت سی پیشانیاں شکن آلود ہوں گی ، بعض زبانیں یاوہ گوئی کریں گی ، بعض قلم حرکت میں آئیں گے ۔ لیکن جو حقیقت ہے اسے بیان کیا جائے گا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور اسلامی علوم کی نشر واشاعت ان نامعتبر آلات واسباب سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی ، اس کا تعلق افراد ورجال سے ہے ، دین ، اصحاب ِدین سے پھیلتا ہے ، علم دین ، اربابِ علم سے پرورش پاتا ہے ۔
اگر گانے بجانے کے آلات سے تبلیغ کا کوئی تصور ہوتا ، تو زمانہ ٔ رسالت مآب ا میں گانے بجانے کے آلات بہت تھے ،اور ان سے دلچسپی رکھنے والے بھی بہت تھے ، مزامیر پر قرآن پڑھا جاتا ، تو لوگ بہت دلچسپی سے سنتے ، مگر ان کا استعمال تو کیا ہوتا ، انھیں صراحۃً حرام قرار دے دیا گیا ، اﷲ جانے آج کے ٹی ۔ وی کی حمایت کرنے والے ہوتے ، تو کیا حکم صادر کرتے ۔
دین سیکھنا ہو ، تو ٹی ، وی کے دینی پروگرام سے نہیں دینداروں سے حاصل کیا جائے گا، ہر چیز اپنے محل پر مناسب ہوتی ہے ، کسی چیز کو بے محل استعمال کرنا ظلم ہے ۔ قرآن شریف کو بیت الخلاء میں رکھ دیا جائے ، تو بیت الخلاء چاہے جتنا خوبصورت ہو ، گناہ ہوگا ، سنیما ہال میں قرأتِ قرآن کی مجلس منعقد کی جائے تو اس کو کون جائز کہے گا ۔(بقول ایک ظریف عالم کے کہ اگر زمانہ بہت ترقی کر جائے ، اور کوئی آدمی رَس گُلا ہگے ، تو اسے کھایا جائے گا ؟ یہاں صرف اصل شے نہیں دیکھی جاتی ، حصول کے ذرائع کو بھی پرکھا جاتا ہے ۔)
اخبار میں متعدد لوگوں نے ٹی ، وی پر اسلامی پروگراموں کی اشاعت کے جواز پر زور دیا ہے ۔ لیکن عقلی تک بندیوں ، مغرب سے مرعوبیت اور بے معنیٰ جذباتیت کے علاوہ کوئی قابل لحاظ دلیل قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش نہیں کی ، جو کچھ کہا گیا ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے :
’’ اسلام کے خلاف دنیا میں پروپیگنڈے ہورہے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں پر فرض ہے